ایک نیوز :اسلام آباد ہائیکورٹ نے جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل پر وزارت قانون کے جوائنٹ سیکرٹری لیول کے افسر کو جمعرات کو طلب کرلیا ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت قانون کے جوائنٹ سیکرٹری لیول کے افسر کو جمعرات کو طلب کرلیا۔عدالت کا کہنا تھاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمات سننے کا اختیار باقاعدہ ضابطے کے تحت دیا گیا یا نہیں۔
عدالت کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔
تٖفصیلا ت کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل قانونی قرار دیئے جانے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نےکی۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آگئے۔
جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل پر سلمان اکرم راجہ کا دلائل میں کہنا تھاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پہلا مقدمہ ہے جس پر انسداد دہشتگردی عدالت کے جج سماعت کررہے ہیں۔وزارت قانون کو اختیار نہیں ہے کہ وہ خود سے کسی جج کو ایک کیس کی سماعت کیلئے کہے،متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا یہ اختیار ہے کہ وہ کسی ایڈیشنل سیشن جج کو فرائض تفویض کرسکتا ہے،وزارت قانون کیسے سینکڑوں ایڈیشنل سیشن ججز میں سے ایک جج کو یہ اختیار دے سکتی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمار کس دیئے کہ آپ نے یہ نکات سنگل بنچ کے سامنے نہیں اٹھائے؟
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے یہ درخواست سنگل بنچ کے سامنے رکھی تھی کہ جج کی تعیناتی غیر قانونی ہوئی ہے،ہم خالصتاً قانون اور آئین کی بات کررہے ہیں، یہی ہماری استدعا ہے،جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ جج بشیر صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کی سفارشات خود میں نے بھجوائی تھیں،جج بشیر صاحب اچھے انسان ہیں۔
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جج بشیر صاحب نے پانچ وزرائے اعظموں کے مقدمات سنے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ لیکن بڑا ایشو یہ بھی ہے کہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی پبلک کیوں نہیں کی گئی۔
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تو واقعی اپنی جگہ پر ایک بڑا مسئلہ ہے، عدالتی کارروائی کو پبلک ہونا چاہئیے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمات سننے کا اختیار باقاعدہ ضابطے کے تحت دیا گیا یا نہیں؟