ایک نیوز : حکومت پاکستان کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو اپنے ملک واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈلائن کا آج آخری روز ۔ طورخم بارڈر پر سینکڑوں گاڑیوں کی لائنیں لگ گئیں ۔ پولیس کی جانب سے مساجد میں اعلان کا سلسلہ جاری ہے ۔
رپورٹ کے مطابق اب تک رضاکارانہ طور پر ہزاروں افغان باشندے وطن واپس جا چکے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق صرف طورخم کے راستے 90 ہزار سے زائد افغان وطن واپس گئے ہیں، جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں ٹرک اور بڑی گاڑیاں افغانستان جانے کی منتظر ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم غیر قانونی افغانیوں کے انخلاء کے لئے پولیس نے مساجد میں اعلانات کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اس ضمن میں مسجد الرحمن ای الیون میں اسلام آباد پولیس نے اعلان کیا ہے ۔
افواج پاکستان اور متعلقہ اداروں نے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کےلیے ملک بھر میں 49 ہولڈنگ ایریاز اور پوائنٹس بنا دئیے ہیں پنجاب میں 36 اضلاع میں یہ سینیٹرز قائم کیے گئے ہیں جبکہ رضاکارانہ واپسی کی مہلت کے آخری دن تک ایک لاکھ سے زیادہ افغانی اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں ۔
خیبر پختونخوا میں تین ہولڈنگ پوائنٹس پشاور، ہری پور اور لنڈی کوتل میں بنائے گئے ہیں ۔سندھ میں دو ہولڈنگ پوائنٹس کیماری اور ملیر میں بنائے گئے ہیں۔بلوچستان میں تین ہولڈنگ پوائنٹس کوئٹہ، پشین اور چاغی میں بنائے گئے ہیں اسی یطرح گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں ایک ایک ہولڈنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں جو کے بالترتیب گلگت اور حاجی کیمپ اسلام آباد میں قائم کیے گئے ہیں۔
افغان تارکین وطن کی وطن واپسی کے لیے آٹھ کراسنگ پوائنٹس استعمال کیئے جائیں گے ۔ چار کراسنگ پوائنٹس بلوچستان سے اور چار خیبر پختونخوا سے افغانستان بارڈر سے ملحقہ علاقوں کا استعمال کیا جائے گا ۔خیبر پختونخوا کی طرف سے طورخم، خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈا کراسنگ پوائنٹس کا استعمال کیا جائے گا۔بلوچستان میں چمن، برابچہ، نور وہاب اور بادینی کراسنگ پوائنس کو مختص کیا گیا ہے ۔
اِس کے علاؤہ جانے والے افراد کی سہولت اور کراسنگ پوائنٹس پر آسانی کے لئیے نادرا کی طرف سے اسپیشل ایپلیکیشن بھی متعارف کروا دی گئی ہے ۔
غیر قانونی غیر ملکیوں کے وطن واپسی کے عمل کی نگرانی اور سہولت کے لئیے وزارتِ داخلہ میں بھی کنٹرول روم بنا دیا گیا ہے ۔
پاک افغان بارڈر پر آمدورفت کی سہولت کے لئے قلعہ عبداللہ اور خیبر (جمرود) میں دو نئے پاسپورٹ آفیسز بھی بنا دیے گئے ہیں ۔کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے خیبر پختونخوا حکومت نے 1700 ایمرجنسی نمبر بھی جاری کر دیا ہے ۔
طورخم بارڈر پر رش کے باعث لنڈی کوتل کے مقام پر عارضی انتظار گاہ قائم کی گئی ہے جہاں افغانستان جانے والے خاندانوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے بعد انہیں آگے جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
ضلع خیبر کی انتظامیہ کے مطابق 30 اکتوبر کو تین سو سے زائد گاڑیوں میں افغانوں نے بارڈر کراس کیا جبکہ ڈیڈلائن ختم ہونے پر گاڑیوں کا رش بھی بڑھ رہا ہے۔
لنڈی کوتل میں موجود افغان باشندوں کو رش کے باعث مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو کھلے آسمان تلے رات بھر گاڑیوں میں انتظار کرنا پڑا۔
افغان تارکین وطن نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ طورخم پر سکریننگ کے مرحلے کو مزید تیز کیا جائے تاکہ ان کو گھنٹوں انتظار نہ کرنا پڑے۔
پاکستان میں مقیم غیرقانونی غیرملکیوں کی آبادیوں میں سکیننگ اور میپنگ مکمل ہوچکی ہے ۔
ڈیڈلائن گزرنے کے بعد پہلے مرحلے میں دستاویزات نہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی اور انہیں گرفتار کرنے کے بعد قانونی ہولڈنگ ایریاز اور عارضی کیمپس میں ٹھہرایا جائے گا۔
ہر کیمپ میں رجسٹریشن ڈیسک پر ایف آئی اے کا عملہ اور نادرا کا سافٹ ویئر بارڈر مینجمنٹ سسٹم نصب ہو گا۔
حکومت کی جانب سے عارضی کیمپوں میں رہائش، کھانے پینے، طبی امداد اورسکیورٹی کے جامع انتظامات کیے گئے ہیں جو یکم نومبر سے فعال ہوں گے۔
ان کیمپوں میں محکہ جیل خانہ جات اور پولیس کے اہلکار تعینات کیے جائیں گے جبکہ طبی امداد کے لیے میڈیکل ٹیموں سمیت قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے کے افسران بھی موجود ہوں گے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کے مطابق ہری پور، پشاور اور لنڈی کوتل کے عارضی کیمپوں میں تارکین وطن کو جانچ پڑتال کے بعد ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
ڈی پورٹ کے مرحلے میں تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔
ملک کے دیگر صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کی واپسی کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
ڈیڈلائن کے بعد غیر قانونی مقیم غیرملکی افراد کے ساتھ کاروبار کرنے یا انہیں پناہ دینے والے پاکستانی شہریوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔