عافیہ صدیقی سے 20 برس بعد بہن کی ملاقات، جذباتی مناظر

عافیہ صدیقی سے 20 برس بعد بہن کی ملاقات، جذباتی مناظر
کیپشن: Sister meets Aafia Siddiqui after 20 years, emotional scenes

ایک نیوز: ڈاکٹرعافیہ صدیقی اس وقت امریکی جیل میں قید کی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں۔ دو دہائیوں سے قید اس غیرمعمولی قیدی سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی تاہم اب امریکی حکومت نے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ان کی ملاقات کروائی ہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ غیرمعمولی ملاقات امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ میں واقع کارسویل فیڈرل میڈیکل سینٹرمیں ہوئی۔ 20 سال بعد اس جذباتی ملاقات میں دونوں بہنوں کو براہ راست ملاقات کی اجازت تو نہ ہوئی۔ ایک کمرے میں شیشے کے اس پار سے عافیہ صدیقی سے ان کی بہن کی ملاقات کروائی گئی جو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ 

بتایا گیا ہے کہ دہائیوں بعد ہونے والی ملاقات میں پہلے تو عافیہ صدیقی نے یہ بتایا کہ اس عرصے میں ان پر کیا گزری تاہم بعد میں فوزیہ صدیقی نے ان کو اہلخانہ اور ان کے بچوں کے متعلق بتایا۔ عافیہ صدیقی نے جیل کا خاکی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور ان کے سرپر سکارف تھا۔

فوزیہ صدیقی کے مطابق، ان بیس سالوں کےدوران بہت کچھ بدل گیا۔ عافیہ صدیقی کی والدہ وفات پاچکی ہیں، بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے اوروہ بیٹا جو چھ ماہ کی عمر میں ان سے الگ ہوا تھا ،اب نوجوان ہے۔ لیکن ملاقات کے دوران فوزیہ کو عافیہ کو ان کے بچوں کی تصویریں دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی، جو وہ بہن کو دکھانے کیلئے پاکستان سے اپنے ساتھ لائی تھیں۔

فوزیہ کی عافیہ سے ملاقات کا احوال سینیٹر مشتاق نے وائس آف امریکہ کو بتایا، کیونکہ فوزیہ ملاقات کے بعد بہت جذباتی تھیں۔

عافیہ صدیقی سے ملاقات کی کوششوں میں ان کی بہن کے ساتھ برٹش سول رائٹس لائیر کلائیو اسٹیفرڈ اسمتھ اور پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد خان شریک رہے ہیں۔ فوزیہ صدیقی، سینیٹر مشتاق اور ان کی رہائی کی کوشش کرنے والے وکیل کی عافیہ سے ملاقاتیں بدھ اور جمعے کو بھی متوقع ہیں، جن میں عافیہ کی رہائی کے لئے مزید ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

سول رائٹس کے وکیل کلائیو اسٹیفر اسمتھ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق، عافیہ نے اپنی بہن کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان، اپنی والدہ، والد اور بچوں کو ہر وقت یاد کرتی رہتی ہیں۔ عافیہ کی اپنے بچوں سے متعلق ہر بات دو ہزار تین کے اس وقت میں منجمد ہے، جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

کلائیو اسٹیفر اسمتھ کے مطابق، 'یہ ایک بہت غمزدہ کرنے والا لمحہ تھا، لیکن پھر بھی یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس جذباتی ملاقات کے دوران وہاں موجود رہا'۔ تاہم بیان کے مطابق ان ملاقاتوں کی اہمیت یہی ہے کہ ہم عافیہ صدیقی کو جیل سے ان کے گھر واپس لے کر آئیں۔

صدیقی اس وقت امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی ایک ایسی وفاقی میڈیکل جیل میں زیر علاج ہیں۔جہاں خواتین قیدیوں کو، خصوصی طبی اور ذہنی صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کانگریس مین بریڈ شرمین، عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے تبادلے کی بات کر چکے ہیں، سینیٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عافیہ کی آزادی کیلئے اپیل کرتے ہیں۔

عافیہ کی رہائی کی تاریخ 3 جون 2082ہے لیکن جولائی 2019 میں، واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران، اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ عافیہ صدیقی کا تبادلہ شکیل آفریدی کےبدلے کر دیا جائے۔ شکیل آفریدی پاکستان میں جیل میں بند ڈاکٹر ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق میں امریکیوں کی مدد کی تھی۔

وائس آف امریکہ کی نیلوفر مغل کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق نے کہا،"میں یہ مقصد لے کر آیا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنایا جائے"

انہوں نے کہا،"عافیہ صدیقی کا اپنی بہن سے ملنا ان کے لئے نفسیاتی طور پر ایک" ریکوری" ہے۔ ہم اپنے وکلا کے ذریعے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جیل کے حکام اگر یہ اجازت اور سہولت دیں تو ہم ان کے لئے باہر سے ایک سائیکائٹرسٹ کا انتظام کر سکیں تاکہ ان کی نفسیاتی مدد ہو سکے۔"

پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد خان نے امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس سے اپیل کی تھی کہ وہ عافیہ صدیقی کو انسانیت کے ناطے معاف کردیں یا پھر ان کا کیس ریویو کریں۔

انہوں نے کہا، "میں امریکی انتظامیہ سے یہ مطالبہ کروں گا کہ بیس سال سے ایک ماں اپنی بچوں سے الگ ہے، اس لئے انسانی بنیادوں پر ان کے کیس کو ریویو کیا جائے اور انہیں رہائی دی جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کے پاس جا سکے۔"

واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات ڈاکٹر فوزیہ کی کوشش پر ہورہی ہے اور انہیں پاکستانی سفارت خانے کا مکمل تعاون حاصل ہے۔

عافیہ صدیقی کو 2010 میں مین ہیٹن میں چھیاسی سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پرالزام تھا کہ انہوں نے دو سال قبل افغانستان میں دورانِ حراست امریکی فوجی افسران کو گولی مارنے کی کوشش کی تھی۔