ایک نیوز: چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے آواز بھر آئی ، انہوں نے ریمارکس دئیے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے۔ اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔ عدالتی فیصلہ دیکھ کر اپ کو لگے گا کہ بااختیار فیصلہ ہے۔ ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے۔ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا۔ توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔
پنجاب کے پی انتخابات میں التوا پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔دوسری مرتبہ بنچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس سنا۔ کیس کی مزید سماعت پیر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کردی گئی ہے۔
سماعت کے آغاز پر پاکستان بار کونسل کے چیرمین ایگزیکٹیو کونسل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کو بعد میں سنیں گے۔ حسن رضا پاشا نے روسٹرم پر آکر کہا بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں۔اس معاملہ پر مجھے چیمبر میں ملیں۔ آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں۔ باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں ۔ چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس کل اور آج دو ججوں نے سماعت سے معذرت کی۔ دئیے کہ ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں۔ باہمی احترام اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی۔ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے۔ سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرسنز سے تیل ڈالا گیا۔ عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں کچھ دوسرے ججز پر تنقید کررہے ہیں۔ہم اس معاملہ کو بھی دیکھیں گے۔ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کردیتے ہیں۔ عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے مزید ریمارکس دئیے سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا۔ توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ اٹارنی جنرل صاحب جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی۔ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں۔ ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیے ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا ؟ اٹارنی جنرل نے کہا وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے۔ ججز کو دفاترسے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا۔ معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آ گئے۔ نوے کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے۔ آئین اور جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔ اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے۔ 90دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔ صدر نے 90دن کی مدت کے 15دن بعد تاریخ دی۔ صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے۔ صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔ عدالت کے سامنے مسئلہ 8اکتوبر کی تاریخ کا ہے۔ عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی۔ عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے۔ شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہورہی ہے۔اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے۔ اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔ عدالتی فیصلہ دیکھ کر اپ کو لگے گا کہ بااختیار فیصلہ ہے۔ ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے۔ 20ارب کےاخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں۔ اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔دوسرا مسئلہ سکیورٹی کا ہے۔ نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یا حساس ہیں۔ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے۔ دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں۔ اس معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل بینچ سے الگ ہو چکے ہیں ۔ دوسرا نقطہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے۔ تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے۔ موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔ 9رکنی بینچ کے 2اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟
اٹارنی جنرل نے 27فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا۔ اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔ چیف جسٹس بولے میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے۔ ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے ۔ ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے۔ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں۔ جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں۔ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا۔ عدالتی بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔ موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے۔ گزشتہ ہفتے کوئٹہ ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے۔ اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔ 9رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے۔ جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا۔ دو سال جسٹس فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا۔ تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔ عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا ۔ اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں۔ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔ سپریم کورٹ میں 20سال کی نسبت بہترین ججز ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں۔ جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا ۔ آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے۔ قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا۔ میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں۔ جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا ۔ جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا ۔ ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں۔ ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفی سے روکا تھا۔ جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا. چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا اپنے دلائل جلدی ختم کردوں گا۔ اس موقع پر عرفان قادر بولے الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنےدیں۔
عرفان قادر نے کہا میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں۔ روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آپ کو سنیں گے آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔ عرفان قادر نے کہا 3 منٹ نہیں بلکہ مختصراً بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں۔ ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔ اٹارنی جنرل صاحب سکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا پہلے سیاسی جماعتوں کو سن لیں، بعد میں دلائل دوں گا۔ معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کیا آٹھ اکتوبر تک انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں اس پر جواب دیں۔
چیف جسٹس نے کہا فاروق ایچ نائیک ، اکرم شیخ اور کامران مرتضیٰ کو بھی سنیں گے۔ پہلے ریاست پاکستان کو سننا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل دلائل دئیے معاملہ 20ارب کا نہیں پوری معیشت کا ہے۔ ملک کو 15سو ارب خسارے کا سامنا ہے۔ 30جون تک شرح سود 22فیصد تک جا سکتی ہے۔ شرح سود بڑھنے سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ماضی کے قرضوں پر بھی نئی شرح سود لاگو ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے؟ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے۔ اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا۔ 15سو ارب خسارے میں 20ارب سے کتنا اضافہ ہو گا؟ الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔
جسٹس منیب اختر نے ایک اور سوال اٹھایا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لیں۔ رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز سٹیٹ بینک میں ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے۔ کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30اپریل کو الیکشن کرواسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے فنڈز میں رقم ہونا اور خرچ کے لیے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں ۔ سٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔ کیا اکتوبر تک بجٹ خسارہ ختم ہوجائےگا؟
اٹارنی جنرل نے کہا امید ہے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوکر فنڈز مل جائیں گے۔ موجودہ مالی سال میں الیکشن کا نہیں سوچا تھا۔ کیا عدالت اس موقع پر فل کورٹ کی استدعا قبول کریگی؟
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا لگتا ہے آپ جذباتی ہورہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا اگر آپ کو وقت درکار ہے تو فراہم کردیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت اس دوران فل کورٹ کی استدعا پر غور کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی۔ جو قیمتی وقت گزر چکا مزید ججز شامل کرنےسے ضائع ہوگا۔ نئےججز کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا۔ الیکشن کمیشن کےوکیل نے اعدادو شمار بتائے تھے حکومت سے تصدیق چاہتے تھے۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دئیے سپریم کورٹ رولز واضح ہیں کہ 184/3 کے مقدمات دو سے زیادہ رکنی بنچ سنے گا۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت کے سامنے فریقین وہ ہیں جو حکومتیں چلاتےہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔