ایک نیوز: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے ایف بی آر میں کرپشن کیسز میں پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کرنے والوں کی پوسٹنگ سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں ،کمیٹی نے ایف بی آر کے کورٹ کیسز کے حوالے سے ایڈوکیٹ جنرل سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔
تفصیلات کے مطابق کمیٹی کا اجلاس کنوینر نواب شیر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلاس میں ایف بی آر سے متعلق سال 2017-18 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
کنوینئر کمیٹی نواب شیر نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر تشریف نہیں لائے،چیئرمین کے نہ آنے کے جواز کو کمیٹی نے قبول کیا ہے۔ ہمارے اپنے پیسے جو ملک کے اندر ہیں وہ لئے نہیں جارہے، حیران ہوں کہ آڈٹ کے جو بھی سوال ہیں آپ کا جواب نفی میں ہے۔
آپ کمٹمنٹ کر کے جاتے ہیں پھر پوری نہیں کرتے،آپ کے کیسز سالہا سال سے چل رہے ہیں،پچھلی دفعہ آپ کے کافی پیرے سیٹل بھی کئے، آپ افسران بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کورٹ کیسز میں رقم پھنسی ہوئی ہے۔ جن افسروں کو سزا ملی وہ پھر انہی پوسٹوں پر آجاتے ہیں تو پھر کیا فائدہ ہوا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ 860 ٹیکس پیئرز کے ڈاکیومنٹس کا آڈٹ کیا تو اسٹیٹمنٹس اور ریٹرنز میں کافی فرق تھا، 41 بلین کی رقم باقی ہے جس پر ریکوری ایکشن نہیں لیا گیا۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ ہم نے41 فیصد سیٹل کروالیا ہے۔ رکن کمیٹی ملک مختار احمد نے کہا کہ ذمہ دارافسروں کے خلاف کاروائی ہوئی ہے؟ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ہم نے سال 2017-18 میں آڈٹ پیرا دیا۔ کیا انہوں نے وقت پر ایکشن لیا؟ وقت پر ایکشن لیتے تو مسئلہ حل ہوجاتا۔
ملک مختار نے کہا کہ آپ لوگ دوبارہ بیٹھ جائیں چیزوں کو ری کنسائل کریں،آج کی میٹنگ سے مطمئن نہیں ہیں۔ کمیٹی نے کرپشن کیسز میں پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کرنے والوں کی ایف بی آر میں پوسٹنگ سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔
ملک مختار نے کہا کہ کیاایسے افسران کام کر رہے ہیں،جو پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی میں آئے ہوں۔ اس حوالے سے کمیٹی کو رپورٹ بنا کر دیں،کمیٹی نے ایف بی آر کے کورٹ کیسز کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔