ایک نیوز: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکہ ایمنسٹی سکیم کو نیب آرڈیننس سے استثنیٰ کیوں دی گئی؟نیب ترامیم میں بے نامی دار کی تعریف تبدیل کردی گئی ،اب نیب ترامیم سے یہ لازم قرار دیا گیاہے کہ پہلے پراسیکیوشن ثابت کرے،نیب ترامیم سے استغاثہ پر غیرضروری بوجھ ڈالا گیا ہے،بے نامی کیخلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے،کم از کم یہ تو طے ہونا ضروری ہے اثاثے کرپشن سے تو نہیں بنائے گئے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل ہیں۔حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کردیا۔
حکومتی وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے حمید الرحمٰن چوہدری کی کتاب کا حوالہ دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس ہمارے لیے ایجوکیشنل بھی ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حمید الرحمٰن مشرقی پاکستان کے سیاست دان تھے جنہوں نے اپنے ٹرائل کی کہانی لکھی،انھیں صرف اس بات پر سزا دی گئی تھی کہ پبلک آفس سے پرائیویٹ کال کیوں کی؟مغربی پاکستان سے تفتیشی افسران اور جج لے کر جاتے تھے جو ٹرائل کرتے،یہی وہ حالات تھے جو آگے چل کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو آمنے سامنے لائے،آئین قانون سازوں کو با اختیار بناتا ہے کہ وہ آج ایسے قوانین کو نہ پنپنے دیں۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی جرم کی جزیات ہی تبدیل کر دیں اس پر کیا کہیں گے؟
مخدوم علی خان نے آئین کے آرٹیکل 12 کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب ترامیم اور ان کا ماضی سے اطلاق غیر آئینی نہیں،بے نامی دار کے کیس میں معاملہ آمدن سے زائد اثاثوں کا ہوتا ہے،اب کہا گیا ہے آپ پہلے ثابت کریں کہ وہ اثاثے کرپشن سے بنائے،یہ ایک نئی چیز سامنے آئی،اب نئے قانون کے مطابق بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں،اب مسئلہ اس رقم کا بن گیا ہے کہ وہ کرپشن سے آئی یا نہیں،ایسا کرنا ہے تو پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کو جرم کی کیٹگری سے نکال دیں،یہ تو احتساب کی ریڑھ کی ہڈی تھی ۔
ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق سے متعلق سوال کیاگیاتھا،ترمیم کی صورت قانون بدل جانے پر سپریم کورٹ نے قانون کی حمایت کی،ریاست کے ماضی کے اطلاق سے متعلق قوانین آرٹیکل 12کے تحت ہیں،آئینی منشا بالکل واضح ہے،قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں،جسٹس منیب نے ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھاکہ ماضی سےاطلاق ہونے والے قوانین کالعدم نہیں قرار دیئے جا سکتے،کسٹم ایکٹ سیکشن 31کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، سپریم کورٹ نے توثیق کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا یہ نکتہ سمجھ چکے ہیں،ایمنسٹی سکیم کو نیب آرڈیننس سے استثنیٰ کیوں دی گئی؟عدالت کو اب بے نامی دار سے متعلق نیب ترامیم پر دلائل دیں،بے نامی دار ریفرنسز میں بنیادی کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا تھا،نیب ترامیم میں بے نامی دار کی تعریف تبدیل کردی گئی ، اب نیب ترامیم سے یہ لازم قرار دیا گیاہے کہ پہلے پراسیکیوشن ثابت کرے،ثابت کرے کہ کرپشن کے پیسے سے بے نامی جائیداد بنی یا نہیں،نیب ترامیم سے استغاثہ پر غیرضروری بوجھ ڈالا گیا ہے،بے نامی کیخلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے،کم از کم یہ تو طے ہونا ضروری ہے اثاثے کرپشن سے تو نہیں بنائے گئے۔
مخدوم علی خان نے کہاکہ کرپشن ثابت کرنے کیلئے صرف بے نامی دار کا الزام لگا دینا کافی نہیں،پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہوگا کہ بے نامی دار ہے یا نہیں،عدالت کا کام قانون میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔نیب نے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور لاکرز توڑے،مخدوم علی خان نے جسٹس منصور علی شاہ کے خورشید شاہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہر بے نامی دار ٹرانزیکشن کرپٹ ٹرانزیکشن نہیں ہے،استغاثہ کرپشن الزامات لگا رہی ہے کوئی تو شواہد ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا ہوتا ہے ذرائع آمدن اثاثوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں،اگر ذرائع آمدن بھی ملزم نے نہیں بتانے تو یہ جرم ثابت نہیں ہو سکتا۔
مخدوم علی خان نے کہاکہ انگلینڈ میں 2جرائم کی سزا موت تھی جواب ختم کردی گئی،برطانیہ میں اب سنگین غداری کی سزا موت نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون کا براہونا اور غیرآئینی ہونا دونوں الگ الگ معاملات ہیں۔