سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی

Aug 31, 2023 | 10:02 AM

JAWAD MALIK

ایک نیوز:سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست خارج کر دی۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے ایک ہفتے کا وقت مانگ لیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کے روبرو دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کے بارے میں تفصیلی فیصلہ دیا ہے۔ ایڈیشنل گراؤنڈز پر دلائل دینے کیلئے ایک ہفتے کا وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کو مزید وقت فراہم نہیں کریں گے، قانون میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال ہمارے سامنے موجود ہی نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔ ہم اس وقت نظر ثانی درخواست سن رہے ہیں۔ جو نکات اصل کیس میں نہیں اٹھائے وہ نظرثانی میں نہ اٹھائیں۔ 

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں ورکرز پارٹی کیس ہائی لائٹ کرنا چاہتا ہوں۔ 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ان چیزوں پر دلائل کے بعد عدالت نکتہ نظر دے چکی۔ ریکارڈ سے بتائیں فیصلے میں کون سی غلطیاں ہیں جن پر نظرثانی ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس الیکشن کا محض اختیار نہیں، یہ آپ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ 

وکیل الیکشن کمیشن کے کہا کہ الیکشن کروانے کی ڈیوٹی ہمیں موثر انداز میں ادا کرنی ہے۔ تفصیلی فیصلے کے بعد کچھ اضافی دستاویزات جمع کروانا چاہتے ہیں، عدالت کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اضافی دستاویزات کا جائزہ بھی آپ کے ساتھ لیں گے، عدالت نے پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کھبی ادھر جارہے ہیں کھبی اُدھر جارہےہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں ابھی اپنے وہ دلائل شروع ہی نہیں کرسکا جو کرنا چاہتا ہوں،مجھے 2 منٹ دیں تاکہ اپنے پوائنٹ پر آسکوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بار بار ایک ہی بات دھرارہے ہیں،الیکشن آپ کا اختیار ہے یا فرض اس نقطے سے آگے نکلیں۔

جسٹس منیب نے وکیل الیکشن کمیشن سےمکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا وقت ضائع نہ کریں،فیصلے میں ہم جن نکات کے ساتھ فیصلہ دے چکے ان پر دوبارہ دلائل نہ دیں،آپ کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے تو عدالت کو بتادیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی ڈیوٹی ہے کیا؟صرف الیکشن کا آرگنائز کرنا اور انعقاد یقینی بنانا ہے۔ 

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ہم نے قانون اور شقیں پڑھ لی ہیں آپ اپنا نقطہ بتائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے  وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہم نے ایک قانون خود بنا دیا ہے کہ الیکشن 90 دن میں کروایں یا 190 دن میں کروایں یہ ہماری مرضی ہے،آپ کو آئین ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں دیتا،آپ نے یہ مینیڈیٹ کیسے اخذ کیا کہ انتخابات 90 دن میں نہ کروانے کا excuse پیش کرسکتے ہیں،کیا آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ 5 سال تک الیکشن کرانے کی پوزیش میں نہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن  نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ہم اتنی دیر سے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں،ہمیں ریکارڈ سے دیکھائیں فیصلے میں کیا غلطی ہے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ہم آپ کو قائل کرنے نہیں بیٹھے کہ فیصلے میں غلطیاں نہیں ہونگی،آپ ہمیں پڑھ کر بتائیں فیصلے میں کہاں  غلطیاں  ہوئیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فیصلے میں غلطی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات موخر کرنے کا اختیار نہیں۔

جسٹسن منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کے سارے نکات ہم نے سن کے فیصلہ دیا،آپ کی نظر میں وہ فیصلہ غلط ہوسکتا ہے مگر ہم نے آئین کی تشریخ کرتے ہوئے دیا،آپ وہ غلطیاں فیصلے میں بتائیں جن پر  ہم نظرثانی کریں۔

وکیل الیکشن کمیشن  نے کہا کہ حاجی سیف اللہ کیس میں 2  رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔ 

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس کیس کا موجودہ کیس سے تعلق ہوتا تو آپ مرکزی کیس میں اس کا حوالہ دیتے،آپ نے کہا تھا کہ سیکیورٹی اور بجٹ مل جائے تو الیکشن کرواسکتے ہیں،آپ سے متعدد بار یہی سوال پوچھا آپ کا یہی جواب تھا،آپ کے جواب کے بعد ہم نے فیصلہ دیا تھا ،فیصلے میں غلطی بتائیں،اگر الیکشن کمیشن فری فیئر انتخابات میں رکاوٹ محسوس کرے تو عدالت میں آسکتا ہے،الیکشن کمیشن خود سے فیصلہ نہیں کرسکتا کہ الیکشن نہیں کروانے،الیکشن کمیشن کی عرضی سمجھ کر ہی حل بتایا تھا،اگر الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کا فیصلہ اچھا نہیں لگا تو اس پر لڑ رہے ہیں،یہ کوئی اختیارات کی لڑائی نہیں کہ یہ میرا اختیار ہے اور یہ تیرا اختیار ،الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کسی صورت انکار نہیں کر سکتا۔

 چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب بھی آئینی خلاف ورزی ہو گی عدالت مداخلت کرےگی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین پاکستان الیکشن کمیشن  کی جاگیر نہیں ہے، آئین پاکستان عوام کی ملکیت ہے،رول آف لاء کا یہی مطلب ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ  الیکشن کی تاریخ آئین اور قانون سے تبدیل ہوگی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن خود سے انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا،الیکشن کمیشن 90 دنوں میں انتخابات نہیں کروا سکتا تو سپریم کورٹ آجاتا۔آئین الیکشن کمیشن کو تاریخ تبدیل کرنے کا اختیات نہیں دیتا۔

چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں غلطی ہے تو نشاندہی کریں، ایگزیکٹیو آرڈر سے الیکشن تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی،ہمیں اب آرٹیکل 254 کے چکر میں نہ ڈالیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ  الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتا،الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ تبدیل کا اختیار نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہمیں سیکیورٹی اور فنڈ دیں ہم  الیکشن کروا دینگے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن 90 دن میں الیکشن نہیں کروا سکتا تو اسکا حل فیصلہ میں بتا دیتا، اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں آرہی تو نہیں آرہی، الیکشن کمیشن نے پہلے راونڈ میں ہمیں آرٹیکل 218 کا درس دیا، آئین کسی کی جاگیر نہیں جو اسکی خلاف ورزی کرے۔اللہ نے ہمیں بھی ایک دماغ اور 2 کان دیئے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست خارج کر دی۔

مزیدخبریں