تحریر: راجہ فرقان احمد
2 فروری 1835 کو لارڈمیکالے نے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں“۔ تعلیم کی بات کریں یا ثقافت کی، زبان کی بات ہو یا تہذیب کی ہم انگریزوں کو ہی فالو کر رہے ہیں. آج جس موضوع پر میں نے اپنے خیالات کو تحریر کی شکل دی ہے وہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے. کچھ دوستوں کا جس میں فاطمہ قمر بھی شامل ہیں کا شکریہ جنہوں نے میری نظر اس مسئلے پر دہرائی.
ہمیں اکثر یہ سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ اساتذہ اپنے حق کے لیے یا حکومتی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر آجاتے ہیں لیکن بمشکل یہ سننے کو ملے گا کہ طالبعلم اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے احتجاج کرتے ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ طلبہ کے کیا مسائل ہیں ان کو کیا دشواری پیش آتی ہے. اس دنیا میں استاد کا اپنا مقام ہے لیکن شاگردوں کے بھی کچھ حقوق ہیں.
والدین سمیت ہمارے حکمران بھی اس مسئلے کو بڑھانے میں خوب کردار ادا کر رہے ہیں. اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جیسے ہی بچہ ڈھائی سال کا ہوتا ہے والدین اسے سکول میں داخل کروا دیتے ہیں اور پھر بس بچے کی دنیا ہی بدل جاتی ہے. وہ عمر جو کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے بچہ ننی، ننی شرارتیں کرتا ہے، اس عمر میں بیگ اٹھا کر سکول جاتا نظر آتا ہے.
دوسری جانب جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے اور زندگی کی جانب اپنا راستہ تلاش کرنے لگتا ہے تو والدین کی طرف سے دو آپشنز دیے جاتے ہیں یا تو ڈاکٹر یا تو انجینئر اور اگر بچہ والدین کی بات نہ مانے تو نافرمانی، غداری جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے. میرے نزدیک یہاں پر والدین کا اتنا قصور نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ جس طرف ہمارا معاشرہ چلتا ہے ہم بھی اسی جانب گامزن ہو جاتے ہیں. طلباء کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کریئر کونسلنگ کا ہے. خصوصی طور پر پاکستان میں یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے کہ طلبہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جو مضمون وہ پڑھ رہے ہیں اس سے انہیں کیا حاصل ہوگا یعنی پسند ناپسند کو بروئے کار لایا ہی نہیں جاتا.
ایک ایسے ہی پیارے دوست مرتضی جسے ہم پیار سے "حاجی" کہتے ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. سول انجینرنگ کرکے اچھی نوکری کی تلاش میں جنوبی کوریا جا پہنچے لیکن جب احساس ہوا کہ یہ تو "رانگ نمبر" ہے واپسی کی راہ لی اورنجی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ڈگری حاصل کرنے میں مصروف ہے. یہ صرف ایک شخص کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تمام طلباءکا مسئلہ ہے جو کسی کی خوشی کے لئے اپنا مستقبل داؤ پر لگاتے ہیں.
دوسرا مسئلہ favouritism ہے. اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ اساتذہ من پسند طلبہ کو خصوصی رعائت دیتے ہیں. میرے نزدیک وہ اس شعبے کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں جبکہ کچھ کی جانب سے طلباء کو "ٹارگٹ" بھی کیا جاتا ہے.طلباء میں زبان کا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے. ہم نے 72 سال پہلے انگریزوں سے آزادی حاصل کی لیکن ذہنی طور پر ہم ابھی بھی غلام ہیں.
اکثر طلبہ کو انگریزی میں دسترس نہیں ہوتی لیکن جن کو ہوتی ہیں وہ مفکر بنے پھرتے ہیں. اس میں بھی حکومت کا اہم رول ہے. پاکستان میں مختلف طبقات کے لئے مختلف درجے بنائے گئے ہیں. سو جب ایک بچہ چھوٹے درجے کے سکول سے اٹھ کر آگے آتا ہے تو انگریزی میں کمال نہ ہونے کے باعث مشکل کا سامنا کرتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزی کو ترک کردینا چاہیے بلکہ انگریزی کو سیکھنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی زبان کو بھی کچھ حیثیت دینی چاہیے. مزید ہوسٹل، رہائش، کھانے پینے یہ تمام چیزیں پیسوں سے جڑی ہیں جن سے طلباء کو ذہبی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
میں حکومت سے یہ التماس کرتا ہوں کہ طلبہ کے لئے کونسلنگ کے پروگرام منعقد کروائے جائیں. حکومت کی جانب سے سب کے لئے تعلیم مکمل فری کی جائے تاکہ والدین پر بوجھ کم سے کم پڑے. میری محترم عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے وعدے جس میں ملک بھر میں ایک نصاب نافذ کرنا ہے، اس کی تشکیل کے لئے اپنا کردار ادا کریں. غریب کا بچہ ہو یا امیرکا نصاب ایک ہی پڑھا جائے. طلباءکے لئے اسپیشل الاؤنس بھی مقر رکیے جائیں. تعلیم کے شعبے میں نئے ریفارمز لائے جائیں.
ایک نیوز نیوز کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔