ایک نیوز :برطانیہ میں رہنے والی نسلی اکائیوں میں سے پاکستانی نژاد افراد کی بے روزگاری کا تناسب سب سے زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔
حال میں ہاؤس آف کومنز ریسرچ لائبریری نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ برطانیہ میں اکتوبر سے دسمبر2022 میں بے روزگاری کی شرح 3.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
ان بے روزگار افراد میں سے سفید فام آبادی کی شرح3.1 فیصد، باقی سب نسلی اقلیتوں کی شرح 7.5 فیصد تھی لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی نژاد آبادی کی شرح 8.7 فیصد ہے، جن میں نوجوانوں اور خواتین سب سے زیادہ ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں، جبکہ برطانوی حکومت ملک کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانیوں کی خدمات کی معترف بھی ہے۔
رپورٹ میں بتایا کہ برطانیہ میں 16 سے 24 سال کے تقریباً 14 لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں، یعنی 20 فیصد پاکستانی نوجوان بے روزگار ہیں، جو کہ ایک بڑی تعداد ہے لیکن بھارتی اور چینی نوجوان ملازمتوں میں دوسری اقلیتوں سے بہت آگے ہیں۔
اگرخواتین میں بے روز گاری کے تناسب کی بات کی جائے، تو پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد خواتین کی شرح تقریباً 11 فیصد ہے۔اس حوالے سے بی بی سی نے مشرقی لندن کے علاقے الفورڈ میں پاکلستانی نژاد شہریوں سے بات کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستانی بے روزگاری کی شرح میں دوسری برادریوں سے اتنے پیچھے ہیں؟۔
سوال کے جواب میں ایک شہری نے تعلیم کی کمی کمزروی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ اس ملک میں آتے ہیں تو شاید اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہاں رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔‘
دوسرے شہری کا کہنا تھا کہ یہاں پر پاکستانی اپنی خواتین کو نوکری کرنے کے لیے اتنا سپورٹ نہیں کرتے جتنی دوسری برادریاں کرتی ہیں۔
ایک پاکستانی نژاد شہری نے کھل کر اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے۔ایک خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستانی انٹرویو میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔
برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی دردانہ انصاری نے کہا کہ حکومت کو معلوم ہے کہ بے روزگاری ہے، اگر وہ اس کو ٹھیک طرح سے سے سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس پر قابو پاسکتے ہیں۔
دردانہ انصاری برطانوی رائل نیوی میں پہلی مسلمان اور پاکستانی اعزازی کیپٹن بھی ہیں، ان کا کہناہے کہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم مین سٹریم میں شامل ہونے سے جھجکتے ہیں، ہم اپنے ایک دائرے میں رہتے ہیں، والدین بھی بچوں کو نئی راہیں تلاش کرنے سے روکتے ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کہوں کہ بچے مسلح افواج جانے کی کوشش کریں، تو ماں باپ اکثر کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح بچہ مین سٹریم سے دور ہی رہتا ہے اور جہاں دنیا میں انتہائی مقابلہ ہے، تو وہاں ہم مقابلے سے ہی دور ہو جاتے ہیں، آپ کو زیادہ تر پاکستانی بچے ٹیکسی چلاتے ہوئے ملیں گے۔
مزید کہا کہ کئی افراد کو جلدی پیسہ کمانے سوچ ہوتی ہے، جس کی سے وہ تعلیم حاصل کر کے بھی اسی طرف دوڑتے ہیں۔ایک حقیقت ہے کہ برطانوی حکومت کی اپنی ہی دیگر رپورٹس کے مطابق نسلی اقلیتوں کو روزگار کے حصول میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سب کے لیے برابر مواقعوں کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔