ایک نیوز: امریکا میں ڈیمو کریٹس اور ری پبلیکنز میں بجٹ اختلافات برقرار ہےجس کی وجہ سے حکومت کا جزوی شٹ ڈاون ناگزیر ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں برسر اقتدار ڈیموکریٹک اکثریت کی سینیٹ اور حزب اختلاف ری پبلیکن اکثریت کے ایوان نمائندگان میں نئے سال کے بجٹ پر اختلافات بدستورر برقرار ہیں جس کے باعث یکم اکتوبر سے امریکا کی حکومت کا شٹ ڈاون ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔دونوں جماعتوں میں اختلافات کا سبب بننے والے عوامل میں اگلے 12 ماہ کے بجٹ کا حجم، روس سے لڑنے کیلئےیوکرین کے لیے جاری امداد، امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر امیگریشن کنٹرول اور غریب امریکیوں کی مدد کے لیے سماجی بہبود کے پروگرام شامل ہیں۔
ایوان کے اسپیکر کیون میک کارتھی کا وفاقی حکومت کو عارضی طور پر کھلا رکھنے کا آخری منصوبہ بھی ڈرامائی انداز میں ناکام ہو گیا ۔اسپیکر کی ری پبلیکن پارٹی کے سخت دائیں بازو کے ایک مضبوط دھڑے نے پیکج کو مسترد کر دیا جس کے بعد شٹ ڈاؤن تقریباً یقینی ہو گیا۔دائیں بازو کے ریپبلکن قانون سازوں نے بہت سی ایجنسیوں کے اخراجات میں 30 فیصد کی کٹو تیوں اور سرحدی حفاظت کے سخت انتظامات کے باوجود بل کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ناکافی قرار دیا، وائٹ ہاؤس اور ڈیموکریٹس نے ریپبلکن کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
ایوان نمائندگان میں ہونے والا ووٹ اس منصوبے کے خلاف 198-232 تھا، سخت دائیں بازو کے 21 ریپبلکنز نے پیکیج کو روکنے کیلئےووٹ دیا جبکہ ڈیموکریٹس نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
خیال رہے کہ امریکا کا نیا مالی سال یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور حکومت چلانے کے لیے بجٹ کی منظوری کے لیے ستمبر کی تیس تاریخ یعنی ہفتہ آخری دن ہوگا۔جمے کے روز ایوان کے بل کی منظوری کی ناکامی نے شٹ ڈاؤن کو تقریباً یقینی بنادیا ہے اور اتوار سے سرکاری ملازم چھٹی پر ہونگے، فوج بغیر تنخواہ کے کام کرے گی اور لاکھوں امریکیوں کے لیے وفاقی پروگراموں اور خدمات میں خلل پڑے گا۔
دوسری طرف صدر جو بائیڈن کی ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریت رکھنے والی امریکی سینیٹ 7ہفتوں کے ایک فنڈنگ منصوبے پر کام کر رہی ہے جو حکومت کو نومبر کے وسط تک مکمل طور پر کھلا رکھ سکے گا تاکہ اس دوران قانون سازوں کو ستمبر 2024 تک اخراجات کی سطح طے کرنے کے لیے مزید وقت مل سکے۔ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی جن کی ریپبلکن پارٹی کو ہاؤس میں معمولی اکثریت حاصل ہے وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ سینیٹ کے اس منصوبے کو ایوان میں ووٹ کے لیے پیش نہیں کریں گے۔
اس کے بجائےایوان نمائندگان نے چار سرکاری اداروں کے لیے سال بھر کے مختص بلوں میں ترامیم پر ووٹ دیا تھا ، جن کی سینیٹ میں منظوری کا بہت کم امکان ہے ۔اس تعطل کی صورت حال میں کسی بھی طور مالی سال کے آخری روز یعنی ہفتے کی آدھی رات تک امریکی حکومت کی غیر ضروری سرکاری کارروائیوں کو بند ہونے سے نہیں روکا جائے گا۔وفاقی حکومت کے بند ہونے سے تقریباً 20 لاکھ سرکاری ملازمین اور اتنی ہی تعداد میں امریکا کے سابق اور حاضر سروس فوجیوں میں سے بیشتر کی تنخواہیں رک جائیں گی۔
شٹ ڈاون سے سرکاری ملازمین فرلو کے نام کی چھٹی پر تصور کیے جائیں گے اور اس طرح بہت سی سرکاری سروسز رک جائیں گی۔سرکاری اداروں نے اپنے کارکنوں کو حکومت کے ممکنہ شٹ ڈاون کے بارے میں مطلع کرنا شروع کر دیا تھا۔رواں سال مئی میں صدر جو بائیڈن اور ایوان نمائندگان کے اسپیکر میکارتھی کے درمیان مالی سال 2024 کے اخراجات کی سطح پر ایک معاہدہ ہوا تھالیکن ایوان میں انتہائی دائیں بازو کے ریپبلکنز کے ایک چھوٹے سے دھڑے نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا تھا۔اب وہ اخراجات میں مزید کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکا میں گزشتہ عشرے کے دوران اس طرح کے شٹ ڈاؤن چار بار ہوئے ہیں۔ اکثر یہ شٹ ڈاون صرف ایک یا دو دن تک جاری رہتے ہیں جس دوران قانون ساز حکومتی کارروائیوں کو مکمل طور پر دوبارہ شروع کرنے کے لیے کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچ جاتے ہیں۔
گزشتہ دہا ئی کا طویل ترین شٹ ڈاؤن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران ہوا جو 35 دن تک جاری رہا۔ اس وقت ٹرمپ نے امریکا کی میکسیکو سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کی ناکام کوشش کی تھی۔
شٹ ڈاؤن کیا ہے؟
امریکا میں 30 ستمبر کو مالی سال کا اختتام ہوتا ہے۔ اس سے قبل کانگریس کو حکومت کے 438 اداروں کے لیے اخراجات مختص کرنا ہوتے ہیں۔اگر قانون ساز نئے مالی سال کے آغاز سے قبل اخراجات کی منظوری نہیں دیتے تو یہ حکومتی ادارے معمول کے مطابق کام جاری نہیں رکھ پاتے اور کئی اداروں کے ملازمین بھی معطل ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کو حکومت کی بندش یا ’ شٹ ڈاؤن‘ کہا جاتا ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق 1981 سے لے کر اب تک 14 بار گورنمنٹ شٹ ڈاؤن ہو چکا ہے جن میں سے کئی بار محض ایک یا دو روز کے لیے ہوئے۔ حالیہ برسوں میں طویل ترین شٹ ڈاؤن بارڈر سکیورٹی سے متعلق ہونے والے تنازع کی وجہ سے ہوا تھا۔ دسمبر 2018 میں شروع ہونے و الا یہ شٹ ڈاؤن 34 دن تک جاری رہنے کے بعد جنوری 2019 میں ختم ہوا تھا۔ اخراجات کی منظوری پر جاری مذاکرات کے دوران سرکاری اداروں کی فنڈنگ کی مدت میں توسیع کر دیتی ہے تاکہ حتمی منظوری تک ادارے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
شٹ ڈاؤن کا اثر کیا ہوتا ہے؟
شٹ ڈاؤن کی صورت میں لاکھوں وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ ملازمت سے معطل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری کام رک جاتے ہیں۔ شٹ ڈاؤن کے باعث مالیاتی امور سے لے کر نیشنل پارکس میں کوڑا اٹھانے تک سرکاری خدمات متاثر ہوتی ہیں۔ناگزیر کاموں سے منسلک اہل کاروں کو معطل نہیں کیا جاتا لیکن شٹ ڈاؤن ختم ہونے تک انہیں ادائیگیاں نہیں کی جاتیں۔ ٹیکس جمع کرنے اور ڈاک کے محکمے جیسے ادارے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
جو شٹ ڈاؤن محض چند دنوں تک جاری رہیں ان کے اثرات عملاً بہت کم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اختتامِ ہفتہ پر ہونے والے شٹ ڈاؤن روز مرہ معمولات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے لیکن اگر دو ہفتے بعد بھی وفاقی ملازمین کو ادائیگیاں نہ ہوں تو اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معیشت پر اثر پڑتا ہے۔