تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے بیانِ حلفی پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ پاکستان بار کونسل کے عدالتی معاون، پی ایف یو جے کے عدالتی معاون ناصر زیدی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے اپنے لیے کچھ اصول طے کیے ہیں۔ آزادی صحافت سے متعلق عدالتی فیصلہ موجود ہے۔ توہینِ عدالت سے متعلق اصول فردوس عاشق اعوان کیس میں طے کرچکے ہیں۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم روسڑم پرآئے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے جواب جمع کروایا؟رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ میرے وکیل لطیف آفریدی بتا سکتے ہیں جواب کیوں جمع نہیں ہوا۔ آپ بارہ دسمبر تک کا وقت دے دیں۔عدالت نے کہا کہ آپ تین دن میں جواب جمع کروا دیں۔رانا شمیم نے استدعا کی کہ پانچ دسمبرکے بعد رکھ لیں یا پھر12 دسمبر کے بعد سماعت رکھ لیں۔
عدالت نے ان سے استفسار کیا اور پوچھا کہ آپ کا بیان حلفی رپورٹ ہوا؟ اخبار نے آپ سے بیان حلفی کی تصدیق کی تھی،؟ اصل بیانِ حلفی تو آپ کے پاس ہوگا۔ آپ کا بیان حلفی کسی مقصد کے لیے تھا۔رانا شمیم نے کہا کہ بیان حلفی سیل تھا مجھے نہیں معلوم انہیں کہاں سے ملا۔ انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ بیان حلفی میں نے ان کو فراہم کیا۔
عدالت نے پوچھا کہ بیان حلفی کا مقصد توجہ ہوگا جو آپ نے بیان کرنا ہے۔ بیانِ حلفی نہیں ہے تو آپ بتا سکتے ہیں اوراگر بیانِ حلفی ہے تو آپ بتائیں گے کہ تین سال بعد اس کی کیوں ضرورت پیش آئی؟رانا شمیم نے کہا کہ عدالت کو بتاؤں گا کہ کیوں بیانِ حلفی دیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے جو بھی کہنا ہے تحریری جواب دیں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اگر بیانِ حلفی ہے تو بہت شرمناک ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ یہ دس سال پرانا بیان حلفی نہیں ہے۔ یہ دس نومبر کا بیان حلفی ہے۔ ہردن اہم ہے کیونکہ عدالتی ساکھ کا معاملہ ہے۔ عدلیہ کیخلاف مہم کا سیزن چل رہا ہے۔ اس بیان حلفی کے بعد عدلیہ کے خلاف منظم مہم چلائی گئی۔ ریکارڈ پرلائیں کہ بیانِ حلفی میں کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سارا سیزن عدالتوں سے باہر چل رہا ہے۔ آپ جج کو کچھ بھی کہیں وہ توہین عدالت نہیں۔ رانا شمیم کے بیان نے معاملے کو مزید پچیدہ کردیا ہے۔ سیاسی بیانیے کے لیے عدالت کو بیچ سے نکالیں۔ تحریری جواب آنے پر کیس آگے بڑھ سکے گا۔سابق جج رانا شمیم نے کہا کہ اس ٹائم پیریڈ میں بیانِ حلفی لندن سے نہیں آسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ پاکستانی سفارتخانہ میں جمع کرادیں بیان حلفی پہنچ جائے گا۔عدالت نے کہا کہ اگررانا شمیم کا بیانِ حلفی اصل ہے، کسی نے دیکھا نہیں تو اخبار پر بہت بڑا بار آ جاتا ہے۔ آپ کے بیان نے اخبار کے لیے معاملہ پچیدہ کردیا ہے۔رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی سربمہر تھا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس طرح لیک ہوا؟چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے وہ بیان حلفی انہیں نہیں دیا؟رانا شمیم نے کہا کہ نہیں، میں نے بیان حلفی اشاعت کے لیے نہیں دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ جو بیان حلفی رپورٹ ہوا وہ کون سا ہے؟ میں پہلے اسے دیکھ لوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے تین سال بعد ایک بیان حلفی دیا۔ کیا آپ نے ابھی تک اپنا بیان حلفی نہیں دیکھا ؟رانا شمیم نے کہا کہ جو بیانِ حلفی یہاں جمع ہوا وہ ابھی تک نہیں دیکھا۔عدالت نے استفسار کیا کہ خبر چھاپنے والے کہتے ہیں انہوں نے بیان حلفی کی آپ سے تصدیق کی ہے۔رانا شمیم بولے خبر چھاپنے کے بعد مجھ سے پوچھا گیا۔ میرے پاس بیان حلفی ہے ہی نہیں لندن سے منگوانا ہوگا۔ مجھے وقت دیا جائے میرے گھر میں دو چالیسویں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ رانا صاحب اس عدالت پر لوگوں کا اعتبار آپ نے متاثر کیا ہے۔ اس عدالت سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم کی جانب سے بارہ دسمبر تک کا وقت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سات دسمبر تک سابق جج گلگت بلتستان کو اصلی بیان حلفی کیساتھ جواب جمع کرانے اور تحریری جوابات کی نقول اٹارنی جنرل اورعدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی۔