ایک نیوز: جسٹس شاہد وحید نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ بینچزکی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کا اختیار ہے۔ موجودہ خصوصی بنچ بھی قانون کے مطابق تشکیل دیا گیا۔ ججز بینچ کی تشکیل پر اعتراض نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ججز کو بینچ کی تشکیل پر اعتراض تھا تو وہ کیس سننے سے معذرت کر سکتے تھے۔
سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں جسٹس شاہد وحید نے 5 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس امین الدین کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔ از خود نوٹس میں وہ باتیں زیر بحث لائی گئیں جو کیس کا حصہ ہی نہیں تھیں۔ 20 اضافی نمبر دینے کے معاملے پر اٹارنی جنرل اور پی ایم ڈی سی جواب جمع کرائیں۔
جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کا اختیار ہے۔ موجودہ خصوصی بنچ بھی قانون کے مطابق تشکیل دیا گیا۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس نمبر 4/ 2022 میں قرار دے چکی کہ چیف جسٹس ہی بنچز بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ججز بینچ کی تشکیل پر اعتراض نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ججز کو بینچ کی تشکیل پر اعتراض تھا تو وہ کیس سننے سے معذرت کر سکتے تھے۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ے رولز بنائے جانے تک ازخود نوٹس کے تمام کیسز ملتوی کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ 1-2 کی اکثریت کیساتھ جاری کیا گیا ۔ جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس امین الدین نے از خود نوٹس کے زیر سماعت مقدمات کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا ہے جبکہ جسٹس شاہد وحید نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
دو ایک کے تناسب سے جاری کئے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام مقدمات کو موخر کیا جائے۔
تحریری فیصلہ کے مطابق بینچ کی تشکیل کے رولز کے مطابق خصوصی بنچز کا تصور نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بینچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بینچ ے الگ کرے۔ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم تک از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کیلئے ججز کا احتساب ہونا چاہیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بینچ کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنا کا طریقہ کار صاف شفاف ہونا چاہیے۔ عدلیہ پر تنقید کو روکا گیا تو عدلیہ کا وجود برقرار نہیں رہے گا۔ قرآن پاک حفظ کرنے سے کیا کوئی اچھا ڈاکٹر یا دندان ساز بن جاتا ہے۔ حافظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں اضافی نمبر دینا مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہوگا۔ قرآن پاک اللہ پاک کی خوشنودی کیلئے حفظ کیا جاتا ہے نہ کہ دنیاوی فائدے کیلئے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کو خصوصی بینچ بنانے کا اختیار نہیں۔ آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں۔ از خود نوٹس کے مقدمات مقرر کرنے اور بنچز کی تشکیل کیلئے رولز موجود نہیں۔ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود نوٹس کے مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا پیمرا کی جانب سے ججز پر تنقید پر پابندی آئین اور اسلام کیخلاف ہے۔ آرٹیکل 184/3 کے تحت فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی موجود نہیں۔ جب مخصوص وابستگی رکھنے والے ججز کے سامنے مخصوص مقدمات لگائے جائیں تو شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔ نہ آئین اور نہ ہی رولز چیف جسٹس کو خصوصی بنچز کی تشکیل اور ججز کے چناؤ کا اختیار دیتے ہیں۔ از خود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں کے سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ آئین میں سوموٹو نامی لفظ کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ ججز نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے کا حلف لے رکھا ہے۔