ایک نیوز: 60 فیصد افراد آج ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جو 1940 میں موجود نہیں تھیں۔
رپورٹ کے مطابق بینک گولڈمین ساکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات مختلف شعبوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ انتظامی نوعیت کے امور میں 46 فیصد کام، قانونی پیشوں میں 44 فیصد کام خودکار ہو سکتے ہیں لیکن تعمیرات کے شعبے میں صرف 6 فیصد جبکہ دیکھ بھال کے شعبے میں چار فیصد کام خود کار ہوں گے۔
رپورٹ میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق 60 فیصد افراد ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جو 1940 میں موجود ہی نہیں تھیں لیکن دیگر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد سے ٹیکنالوجی میں تبدیلی نے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کو بے روزگار کیا ہے۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر آرٹی فیشل انٹیلیجنس نے بھی ماضی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرح ترقی کی تو یہ بہت جلد ملازمتوں کو کم کرسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے طویل المدت اثرات انتہائی غیر یقینی ہیں اور مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام پیش گوئیوں پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہناہے کہ اس ٹیکنالوجی کا ارتقا کیسے ہو گا اور کیسے کمپنیاں اس کو اپنے نظام اور کام میں شامل کریں گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت ہمارے کام کرنے کے طریقے میں خلل نہیں ڈالے گی لیکن ہمیں اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور کم اخراجات سے ممکنہ معیار زندگی کے فوائد پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اگر دوسری کمپنیاں اور معیشتیں بھی ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو بہتر طور پر اپنا تی ہیں تو نقصان یا ناکامی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔