ایک نیوز: انسدادہشتگردی عدالت نے توڑپھوڑ، جلاﺅگھیراﺅ اور ظل شاہ قتل کیس میں گرفتارملزموں کی بعدازگرفتاری ضمانتوں پر فیصلہ محفوظ سناتے ہوئے حسان نیازی اور راجہ شکیل زمان سمیت دیگر کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں جلاؤ گھیراؤ اور ظل شاہ قتل کیس میں گرفتار ملزموں کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی،انسداد دہشتگردی عدالت کے جج اعجاز احمد بٹر نے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے مقدمے میں ملوث ملزم حسان نیازی ، راجا شکیل ،محسن شاہ ،اشتیاق احمد ،جہانزیب اور عمیر فرید کی بعد از گرفتاری ضمانتوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ جس میں عدالت نے ملزمان کی ضمانتیں منظور کرنے کا حکم دیا ہے۔
وکیل راجہ شکیل زمان نے کہا کہ ظل شاہ قتل کیس میں 2ایف آئی آرز درج ہوئیں دونوں ایف آئی آرز میں مختلف کہانی بیان کی گئی ہے،ظل شاہ کو قتل کرنے اور حقائق چھپانے کا الزام غلط ہے،ظل شاہ کو سڑک سے اُٹھا کر ہسپتال پہنچایا،راجہ شکیل زمان کی گاڑی کی ٹکر سے ظل شاہ قتل نہیں ہوا۔
عدالت نے حسان نیازی اور راجہ شکیل زمان سمیت دیگر کی بعد از گرفتاری ضمانتوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حسان نیازی اور راجہ شکیل زمان سمیت دیگر کی بعداز گرفتاری درخواست ضمانت منظور کر لی ،عدالت نے ایک ایک لاکھ کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔
دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی کی مقدمہ کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کردی۔
جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو پی ٹی آئی رہنما اور عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی کی مقدمہ کالعدم قرار دینے کے لیے درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے حسان نیازی کو مقدمے سے ڈسچارج کیا ہے۔ حسان نیازی کیخلاف مقدمہ اب بھی برقرار رہے۔ پولیس نے حسان نیازی کو رہا نہیں کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست ناقابل سماعت ہے، واپس لے لیں یا پھر ہم مسترد کردیتے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ حسان نیازی کو متعلقہ عدالت نے کیس سے ڈسچارج کردیا ہے۔ ملزم کے کیس سے ڈسچارج ہونے پر مقدمہ کالعدم قرار دینے کی درخواست پر کارروائی نہیں ہوسکتی۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ درخواستگزار کو چاہیے کہ پولیس کیخلاف حبس بے جا کی نئی درخواست دائر کرسکتا ہے۔ دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ حسان نیازی کیخلاف مقدمہ ختم کیا جائے۔ سندھ پولیس سے مقدمات کی تفصیل طلب کی جائے۔ ایم پی او کے تحت گرفتار نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کہ ایک مقدمہ کی زائد ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔