سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل سینیٹ سے بھی منظور, اپوزیشن کا شور شرابہ

 سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل سینیٹ سے بھی منظور, اپوزیشن کا شور شرابہ
کیپشن: سینیٹ میں بل پیش،پی ٹی آئی کے عدلیہ مخالف بل پرنعرے،ڈائس کاگھیراؤ

ایک نیوز:سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنےکی اپوزیشن کی تحریک مستردکردی گئی اور بل فوری طور پر منظور کرنے کی تحریک منظور کی گئی۔ اس موقع پر اپوزیشن نے ڈائس کا گھیراؤ کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا اور نعرے بازی کی۔

سینیٹ میں بل پیش کرنے کے دوران سکیورٹی نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے درمیان حصار بنایا جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا،  بل کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک جمع کرائی۔

وفاقی وزیر  اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2018 میں معاہدہ ہوا تھاکہ اگلا الیکشن نئی مردم شماری پر ہوگا،اسکے ساتھ کوئی پچسویں یا چھبسویں ترامیم ہوئی تھی،پہلی ڈیجٹل مردم شماری جاری ہے ساتھ خانہ شماری بھی ہورہی ہے،اگر مردم شماری کے نتائج اورحلقہ بندیاں ہوجاتی ہیں تو پھر اس مردم شماری پر انتخاب ہوگا۔

سینیٹر ہدایت نےتجویز دیتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول تشکیل دی جائے۔چئیرمین سینیٹ نے اگلے ہفتے ڈیجیٹل مردم شماری پر بحث کے لئے کمیٹی آف دی ہول تشکیل دینے کی رولنگ دے دی۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ  کی چئیرمین سینیٹ سے استدعا کی کہ بل میں اپیل کا حق دیاجائےگا،اپیل 30دن دائر کی جاسکتی ہے،اس مقاصد کے ساتھ یہ بل پاس کیاجائے۔
چئیرمین سینیٹ نے وزیر قانون سے استفسار  کیا کہ اسے کمیٹی میں نہیں بھیجنا؟وزیرقانون نے کہا کہ اس بل کو آج ہی منظور کرایا جائے۔چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ بل کی منظوری کے لئے ہاؤس کی رائے لی جائے گی۔قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل پاس کردیا ہے،سینیٹ بھی اس بل کو پاس کرے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ  نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز برابر ہیں، ادارےکو مضبوط کرنےکے لیے شخصیت کو مضبوط کرنےکے بجائے نظام کو مضبوط کیا جائے، قومی اسمبلی نے گزشتہ روز سپریم کورٹ بل 2023 پاس کیا، پارلیمان کا اختیار ہےکہ وہ قانون سازی کرسکتی ہے، دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں نیا رجحان دیکھا،  آئین کہتا ہےکہ حدود میں غیر ضروری مداخلت نہ کریں۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اب سپریم کورٹ سے بھی اس حوالے سے بات آئی، اجتماعی سوچ ہی لوگوں کو  آگے لےکر چلتی ہے، اب بینچ کے لیے کمیٹی میں تین ارکان فیصلہ کریں گے،  آخری فل کورٹ اجلاس 2019 میں ہوا،  جب 184 تین کے تحت از خود نوٹس ہو تو کمیٹی اس کا جائزہ لےگی، جہاں آئین کی تشریح درکار ہو تو پانچ ججز کا بینچ ہوگا۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مردم شماری 71 کی طرز پر کی جارہی ہے ،انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے ،اگر انتخابات ابھی ہوتے ہیں تو پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے ۔2 حکومتیں اب بن جائیں تو کیا اکتوبر میں شفاف انتخابات ہو سکیں گے ،ان کاکہناتھا کہ 2017 کی مردم شماری میں اتنے اخراجات ہوئے، اس پر اعتراضات بھی تھے ، اس مردم شماری پر بھی کہاگیا ترمیم لائی اور ترمیم لائی گئی ۔

 اسحاق ڈار نے کہاکہ پنجاب اور کے پی انتخابات پھر پرانی مردم شماری پر ہوں گے ،2017 میں بھی ترامیم لائی گئیں تو اس بار بھی لانے میں حرج نہیں ۔موجودہ حکومت نے ایک دن بھی بیرونی ادائیگی نہیں روکی، پاکستان کا بیرونی قرضہ نیچے گیا ہے، کوشش کر رہے ہیں ذخائر میں بہتری لائیں،کوشش ہے رواں برس سٹیٹ بینک ذخائر 13 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں۔معیشت پر سیاست نہ کی جائے، چارٹر آف اکانومی پر بات کی جائے، مانیٹری پالیسی میں وزارت خزانہ کا کوئی عمل دخل نہیں، گورنر سٹیٹ بینک اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔

اسحاق ڈار کافیصل جاوید کو معیشت پر مناظرے کا چیلنج:

ادھر  پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ 10 مہینے پہلے معیشت کیوں بہتر چل رہی تھی؟کس نے اچھی بھلی چلتی معیشت کو تباہ کیا، عمران خان کے دور میں تو معیشت گرو کررہی تھی،سینیٹ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹر فیصل جاوید کو معیشت پر مناظرے کا چیلنج کر دیا۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ فیصل جاوید کی موازنہ کرنے کی تجویز اچھی ہے، 2018 میں معیشت کیا تھی اور22 میں کیا تھی اور آج کیا ہے، موازنہ کیا جائے، چیئرمین سینیٹ آئندہ ہفتے کوئی دن مقرر کرلیں اس پر بحث کیلئے تیار ہوں۔

یہ اصلاحات کا نہیں مفادات کا بل ہے، شہزاد وسیم

قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ عوام اور قانون کا نام لے کر ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ نیک نیتی سے اصلاحات کا بل ہے، قوم کو بے وقوف بنانے کی روش ختم کریں، یہ اصلاحات کا نہیں مفادات کا بل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعے یہ ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں،آج یہ ایوان پر ایک اور حملہ کرنے جا رہے ہیں،آئین نے 90 روز میں الیکشن کرانے کا پابند کیا ہوا ہے،ان کو بل پاس کرانے کی جلدی کیوں ہے؟انکے اصل مفاد کے لئے آج کا دن اہم ہے،آج کے دن سپریم  کورٹ میں پاکستان کے مستبقل کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے،قانون اور آئین کے ساتھ کھلوڑ مت کریں،بل سے قانون کےترازو کے پلڑے برابر نہیں کر رہے بلکہ ترازو کو گھر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں،انھوں نے مہم کے ذریعے عدلیہ کو نشانہ بنایا،انہوں نے جلسے میں پارلیمنٹ میں ججز کی تصویر لہرائی۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پالیسی کے دوران سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں،ایک اسٹیٹمنٹ آئی یہ ملک ڈیفالٹ کرنے کے قریب ہے،ملک ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے ہم سوال بھی نہ کریں؟یہ لوگ ایک دن بھی پیٹرول پر سبسڈی نہیں دے سکتے،آئی ایم ایف ان کو آنکھیں دکھاتاہے تو جھاگ کی طرح حکومت بیٹھ جاتی ہے،اسٹیٹ بینک کا قانون ملکی مفاد کے خلاف تو تبدیل کیوں نہیں کرتے؟

بلوچستان عوامی پارٹی کی بل کی حمایت:
بلوچستان عوامی پارٹی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ طریقہ کار بل کی حمایت کااعلان کردیا ۔سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ ہم اتحادی ہیں،پارٹی صدر نے بل کی حمایت کا کہا ہے۔منظور کاکڑ کا کہنا ہے کہ یہاں پر شراب کی بوتل پر از خود نوٹس لیا گیا۔

سوچے سمجھےمنصوبےکےتحت پارلیمنٹ کو غیرفعال کر دیا گیا،رضا ربانی
ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ بات ماننے سے قاصر ہوں کہ اس بل کا تعلق 90 دن کے اندر الیکشن کرانے سے متعلق ہے، یہ بل وکلاء برادری کا پرانا مطالبہ رہا۔رضا ربانی نے کہا کہ لاتعداد ایسی قراردادیں ہیں جس میں بار کونسلز کی جانب سے ازخود نوٹس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا،سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کو غیرفعال کر دیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی کی بات ہے سیاسی جماعتیں پارلیمان کے بجائے اپنے تنازع کو سپریم کورٹ لے کر گئیں، سپریم کورٹ کو پارلیمان کے تنازع کا حصہ بننا پڑا، سپریم کورٹ ثالث نہیں بن سکتی۔

سینیٹر بہرہ مند تنگی اور سینیٹر فیصل جاوید میں ہاتھا پائی:

سینیٹ میں سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسجر بل پیش کیا جارہا ہے،پی ٹی آئی سینیٹرز کی جانب سے چئیرمین ڈائس کا گھیراؤ کیا گیا۔سینیٹ میں پی ٹی آئی سینیٹرز نےعدلیہ پر حملہ نامنظور کے نعرے لگا دیئے اور ڈائس کا گھیراؤ کرلیا جبکہ بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔پی ٹی آئی رہنماؤں نے ہاتھوں میں حکومت خلاف بینرز بھی اُٹھا رکھے تھے۔سینیٹر بہرہ مند تنگی اور سینیٹر فیصل جاوید میں ہاتھا پائی بھی ہوگئی۔

سینیٹ میں ووٹ:

بل کے حق میں 60 ووٹ آئے،بل کی مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔

https://www.pnntv.pk/uploads/digital_news/2023-03-30/news-1680164111-2257.mp4