آڈیو لیک کیس:شہریوں کی سرویلنس بادی النظر میں قانوناًدرست نہیں، عدالت

آڈیو لیک کیس:شہریوں کی سرویلنس بادی النظر میں قانوناًدرست نہیں، عدالت کا حکم نامہ جاری
کیپشن: Audio leak case: Surveillance of citizens is not legally valid, court order issued

ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری بی بی  کی آڈیو لیکس کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا  جس میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کی سرویلنس اور کال ریکارڈنگ سسٹم بادی النظر میں قانوناً درست نہیں ہے۔

جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بابر ستار نے بشری بی بی آڈیو لیکس 29 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر ٹیلی کام کمپنیز کا شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی دینا غیر آئینی ہے۔ عدالت کی جانب سے ٹیلی  کام کمپنیز کو حکم  جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیاں آئندہ سماعت تک یقینی بنائیں کہ سرویلنس سسٹم تک رسائی نہ ہو۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور پی ٹی اے عدالت کو بتا چکے کہ کسی ایجنسی کو سرویلنس کی اجازت نہیں دی،لا فل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم کے حوالے سے غلط بیانی پر پی ٹی اے چیئرمین اور ممبران کو توہین عدالت کا شوکازنوٹس جاری کیا جائے۔

عدالت  کی جانب سے حکم نامے میں  ٹیلی کام آپریٹرز اور پی ٹی اے کے درمیان خط و کتابت کی تفصیل پی ٹی اے کو سربمہر لفافے میں جمع کرانے اور ٹیلی کام کمپنیوں کو بھی پی ٹی اے کے ساتھ سسٹم انسٹال کرنے کی سر بمہر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی  گئی ہے۔

حکم نامے میں  وفاقی حکومت سے استفسار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت رپورٹ دے لا فل انٹرسپشن مینجمنٹ سسٹم لگانے کا ذمہ دار کون ہے ؟ لا فل انٹرسپشن مینجمنٹ سسٹم کا انچارج کون ہے جو شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے۔ وفاقی حکومت 6ہفتے میں بتائے کون شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی  اور سوشل میڈیا پر ڈیٹا لیک کاذمہ دار ہے۔

عدالت نے  اپنے حکم نامے میں کہا کہ بادی النظر میں وزرائے اعظم ، سیاسی لیڈران ، ججوں اور ان کی فیملی ، بزنس مینز کی آڈیو ریکارڈنگ سرویلنس کا میکنزم موجود ہے، بادی النظر میں آڈیو ریکارڈنگ کر بعد مخصوص سوشل اکاؤنٹس پر پھر مین سٹریم میڈیا پر آتی ہے۔

تقریباً 40 لاکھ موبائل صارفین کی ایک وقت میں کال اور ایس ایم ایس تک رسائی ہو رہی ہے، موبائل کمپنیوں نے شہریوں کے 2 فیصد ڈیٹا تک جو رسائی کا سسٹم لگا کر دے رکھا ہے بادی النظر میں قانوناً درست نہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 2 فیصد ڈیٹا تک رسائی کے سسٹم کو کون استعمال کر رہا ہے اس کے بارے میں عدالت کو نہیں بتایا گیا، امید ہے وزیر اعظم خفیہ اداروں سے رپورٹس طلب کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے۔

عدالت نے ملزمان کی سی ڈی آر،لائیو لوکیشن پولیس کے ساتھ شئیر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیاں آئندہ سماعت تک سی ڈی آر اور لائیو لوکیشن وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق شئیر کریں۔