پنجاب اسمبلی کے ایوان میں اراکین کی کل تعداد 371 ہے تاہم 25 ارکان محرف ہونے کے بعد یہ تعداد 346 رہ گئی ہے اور وزیراعلیٰ کے لیے درکار سادہ اکثریت کسی گروپ کے پاس نہیں ہے تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر ایوان کی سادہ اکثریت یعنی 186 کسی کے پاس نہ ہو تو پھر جس رکن کے پاس موجود ارکان کی سادہ اکثریت ہو وہی وزیراعلیٰ منتخب ہو جائے گا۔
اس طرح حمزہ شہباز کو موجودہ ارکان میں سے کم ازکم 176 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور انہیں امید ہے کہ آخری منحرف رکن فیصل نیازی بھی انہیں ووٹ دے دیں تو 177 ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔
دوسری طرف پی ٹی آئی اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الہی کے پاس زیادہ سے زیادہ 168 ارکان کی حمایت موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں کسی جماعت کا امیدوار دوسرے کو ووٹ نہیں دے سکتا نہ ایسا ووٹ گنا جائے گا اس لیے اب کوئی رکن منحرف نہیں ہو سکتا۔
حمزہ شہباز کے پاس اپنی جماعت مسلم لیگ ن کے 165 ارکان ہیں جن میں سے چار منحرف ہو گئے تھے تاہم عطا تارڑ کا کہنا ہے منحرف ارکان میں سے جلیل شرقپوری، اشرف انصاری، مولوی غیاث الدین واپس پارٹی میں آ چکے ہیں جبکہ فیصل نیازی سے مذاکرات جاری ہیں۔منحرف رکن فیصل نیازی نے اپنا استعفا سپیکر کو دیا تھا تاہم ابھی تک وہ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوایا گیا۔
عطا تارڑ کے مطابق تمام منحرف ارکان کو پارٹی کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آج خط بھی لکھا جا رہا ہے کہ وہ پارٹی امیدوار کو ووٹ دیں۔ اب دوسری پارٹی کو ووٹ دینے یا غیر حاضر رہنے کی صورت میں وہ ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔
اس طرح پارٹی کے فیصل نیازی سمیت 165 ارکان کے بعد آزاد رکن جگنو محسن بھی ن لیگ میں شامل ہو چکی ہیں جبکہ تین دیگر آزاد ارکان اور ایک رکنی راہ حق پارٹی کی حمایت کے ساتھ ووٹ 170 تک پہنچ جائیں گے جبکہ پیپلز پارٹی کے سات ارکان بھی اتحادی ہیں اس طرح حمزہ شہباز کے کل ووٹ177 ہیں تاہم اگر فیصل نیازی استعفے پر مصر رہے تو یہ ووٹ 176 ہو جائیں گے۔
دوسری طرف پرویز الہی کے لیے پی ٹی آئی اتحاد کے ارکان کی کل تعداد 183 ہو سکتی تھی مگر 25 منحرف ارکان کے نکلنے کے بعد یہ تعداد 158 رہ گئی ہے۔ ق لیگ کے 10 ارکان کے ساتھ پرویز الہی کے حامی ارکان کی مجموعی تعداد 168 تک پہنچ جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے پانچ امیدواروں کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا ورنہ یہ تعداد 173 بھی ہو سکتی تھی۔
تاہم اس کے باوجود بھی حمزہ شہباز کو دو یا تین ووٹوں کی برتری حاصل رہتی۔
اس طرح کل حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ برقرار رہنے کا قوی امکان ہے۔ پنجاب اسمبلی کے 20 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد ان کے حلقوں میں ضمنی الیکشن 17 جولائی کو ہے۔
اگر پارٹی ان 20 حلقوں میں سے 15 میں جیت جائے اور الیکشن کمیشن سے پانچ مخصوص نشتسوں پر بھی پی ٹی آٗئی کی خواتین اراکین کا نوٹیفیکیشن ہو جائے تو پی ٹی آئی گروپ اسمبلی میں اکثریتی گروپ بن کر حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے محروم کر سکتا ہے۔