عصمت اللہ برہان کاکہناتھاکہ ہم نے نہ ہی حکومتی سطح پر اور نہ ہی کسی پاکستانی کمپنی کے ساتھ کوئلے کے حوالے سے ایسا کوئی معاہدہ کیا ہے۔ ہم کوئلہ مقامی صنعت کاروں کو بیچتے ہیں. یہی کوئلہ مقامی صنعت کار پھر پاکستان برآمد کرتا ہیں اور اس پر ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔حکومت کی تبدیلی کے بعد کوئلے کی برآمد میں اضافے بارے سوال پر ان کاکہناتھاکہ پاکستانی کرنسی کی خراب حالت کا ہمیں پتہ ہے تو پاکستان سے ہمیں کسی فائدے کی امید نہیں ہے۔ ہمارے لیے پاکستان اور ان کے کوئلے کی ضرورت اہم نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے اپنے مقامی تاجر اہم ہیں اور ہم ان کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔ مقامی تاجر جس ملک کو بھی چاہیں کوئلہ بھیج سکتے ہیں لیکن بیرون ملک کوئلہ برآمد کرنے پر ہم نے اس پر ڈیوٹی عائد کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو ہماری طرف سے اور افغان عوام کی طرف سے اس کی بیان پر رد عمل کا اندازہ اندارہ ہو گیا ہوگا۔ ہم نے انتقام لینے کے لیے کوئلے پر فی ٹن ڈیوٹی 90 ڈالر سے بڑھا کر 200 ڈالر کردی ہے۔ مقامی تاجروں کو فی ٹن کوئلہ تین سے چار ہزار افغانی پر دیتے ہیں اور جب یہ کان سے نکلتا ہے تو مقامی تاجروں کو تقریبا پانچ ہزار افغانی کا پڑتا ہے اور طورخم جانے تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات سمیت فی ٹن آج کل پاکستان کو 280 ڈالر تک ملتا ہے۔
واضع رہے کہ پاکستان نے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس بارے وزیراعظم شہباز شریف نے پڑوسی ملک سے کوئلے کی درآمد کے بارے میں بتایا تھا کہ افغانستان سے کوئلے کی درآمد سے ملک کو دو ارب ڈالرز سے زیادہ بچت ہوگی۔