پاکستان کی ہر حکومت کو قومی خزانہ خالی کیسے ملا؟

پاکستان کی ہر حکومت کو قومی خزانہ خالی کیسے ملا؟
کیپشن: How did every government of Pakistan find the national treasury empty?(file photo)

سدھیر چودھری: ملکی تاریخ  میں ہونے والے 11 عام انتخابات کے نتیجہ میں آنے والی حکومتوں کو قومی خزانے میں کیا ملا اور انہوں نے خزانے کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ خالی خزانے کا شور مچاتی سیاسی جماعتوں کو کتنا قومی خزانہ ملتا رہا؟ اس حوالے سے ایک نیوز کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

تفصیلات کے مطابق 1971 کی بات ہے پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی ہر طرف بولتا تھا۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت خزانے میں مجموعی طور پر 24 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھے۔ جس میں سے 5 کروڑ50 لاکھ ڈالر کا سونا، 17 کروڑ ڈالر اسٹیٹ بینک اور 1کروڑ90لاکھ ڈالر نجی بینکوں میں محفوظ تھے۔ 

بھٹو سے جب اقتدار منتقل ہوا تو مارچ 1977 میں اسٹیٹ بینک کے پاس 16کروڑ 50 لاکھ اضافے سے40 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھے۔ جون 1978میں پہلی مرتبہ خزانے نے ایک ارب کا ہندسہ چھوا۔

جنرل ضیاءالحق کے دور میں ڈالرز کی ریل پیل رہی اور 1985 میں ہونے والے جنرل انتخابات کے وقت ایک ارب 12 کروڑ اضافے سے مجموعی زرمبادلہ ایک ارب 53کروڑ60لاکھ ڈالر ہو گئے۔ ضیاء الحق کا دور 1988 میں ختم ہوا اور جنرل انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کرسی اقتدار پر قدم جمائے تو اس وقت خزانے میں 1 ارب 18 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھے۔

اکتوبر 1990 کو ن لیگ نے اقتدار سنبھالا تو اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر ایک ارب 80 لاکھ ڈالر تھے اس دوران سونے کے ذخائر 68کروڑ30لاکھ جبکہ اسٹیٹ بینک کے پاس21کروڑ70لاکھ اور نجی بینکوں کے پاس 10کروڑ80لاکھ ڈالر تھے۔ ن لیگ کے دوراقتدار کے اختتام پر اکتوبر 1993 میں ایک ارب 30کروڑ10لاکھ ڈالر کے ذخائر تھے۔ 

پیپلزپارٹی کی حکومت ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آ گئی اور فروری 1997 میں جب اقتدار چھوڑا تو خزانے میں مجموعی زرمبادلہ ایک ارب 90کروڑ50لاکھ ڈالر تھا۔ نجی بینکوں میں 20کروڑ80لاکھ،سونے کے ذخائر ایک ارب 9 کروڑ جبکہ اسٹیٹ بینک کے پاس 68 کروڑ80لاکھ ڈالر تھے۔ 

ن لیگ نے تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالا اور 1997 سے اکتوبر 2002 کے جنرل الیکشن تک خزانہ ڈالروں سے بھر چکا تھا۔ خزانہ مجموعی طور پر 7 ارب 12 کروڑ ڈالر کے اضافے سے 9 ارب 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہوچکے تھے۔

سال 2002 کے جنرل انتخابات میں ق لیگ نے الیکشن جیتا اور مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئی اور ستمبر 2008 تک  براجمان رہی،، ق لیگ جب اقتدار سے جدا ہوئی تو اس وقت خزانے میں 9 ارب 80 کروڑ 60لاکھ ڈالر تھے۔ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے دوبارہ میدان مار لیا اور پانچ سال تک حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی، جولائی 2013 میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر  68کروڑ40لاکھ ڈالر اضافے سے 10ارب49کروڑ ڈالر ہوئے۔ 

جولائی 2013 میں ن لیگ نے چوتھی مرتبہ اقتدار سنبھالا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو 5 ارب 32کروڑ50لاکھ ڈالر کے اضافے سے جولائی 2018 میں 15 ارب 81کروڑ50لاکھ ڈالر تک پہنچا دیا۔ جن میں سے 2 ارب 53کروڑ60لاکھ ڈالرمالیت کا سونا، 10ارب 35 کروڑ 10 لاکھ ڈالر اسٹیٹ بینک اور 2 ارب 92 کروڑ 70 لاکھ ڈالر نجی بینکوں کے پاس تھے۔

جولائی 2018 کے جنرل انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف مسند اقتدار پر براجمان ہوئی تو خزانہ خالی کا شور مچانے والوں کو 15 ارب 81 کروڑ ڈالر کی رقم استعمال کے لئے ملی۔ اپریل 2022 کو جب اقتدار ختم ہوا تو خزانے میں مجموعی طور پر 17 ارب 49 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھے جن میں 3 ارب 97 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا سونا، 10 ارب 7 کروڑ 52 لاکھ ڈالر اسٹیٹ بینک اور 2 ارب 77 کروڑ 20 لاکھ ڈالر نجی بینکوں کے پاس تھے۔ 

ن لیگ نے اپریل 2022 میں ٹیک اوور کیا تو 9 ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک کے مجموعی ذخائر 8 ارب 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی سے 9 ارب 45 کروڑ 32 لاکھ ڈالر رہ گئے۔ جن میں 3 ارب 67 کروڑ 84 لاکھ ڈالر اسٹیٹ بینک اور 5 ارب 77 کروڑ 48 لاکھ ڈالر نجی بینکوں کے پاس ہیں۔10 ماہ کے دوران نجی بینکوں کے ذخائر میں تقریبا 100 فی صد اضافہ ہوا۔

حکومت ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے کوشاں ہے اور ان کی شرائط پوری کرنے کے لئے مرحلہ وار ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو رہا ہے۔