ایک نیوز: طالبان حکومت کے افغانستان میں خواتین کی زندگی اجیرن،افغانستان کو عالمی سطح پر زچگی اور بچوں کی بڑی شرح اموات کا سامنا،1 لاکھ بچوں کی پیدائش پر 638 خواتین موت کےمنہ میں چلی جاتی ہیں، 2025 تک خاندانی منصوبہ بندی کے کلینک ختم ہونے کا خدشہ،ڈبلیو ایچ او نے ہوشربا رپورٹ جاری کردی۔
تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں زچگی کے دوران ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون کی موت ہوتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ نے خبردار کیا کہ 51 ہزار اضافی زچگی اموات، 4.8 ملین غیر ارادی حمل، اور 2025 تک خاندانی منصوبہ بندی کے کلینک ختم ہو جائیں گے، افغانستان میں خواتین صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس سے ماوٴں اور بچوں کی شرح اموات میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
یو این ایف پی اے کے مطابق نابالغ بچیوں کی شادیوں سے بڑھتے ہوئے خطرات اور عسکریت پسندوں سے خواتین کی جبری شادیوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کا معائنہ کرنے والے مرد ڈاکٹروں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے،ہسپتالوں اور کلینکس کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ صرف خواتین عملے کو ہی خواتین مریضوں کی دیکھ بھال کی اجازت دیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق افغانستان میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی شدید کمی ہے، 10 ہزار افغانیوں کے لیے صرف 4.6 ڈاکٹر، نرسیں اور دائیاں ہیں جو کہ معیاری سطح سے تقریباً پانچ گنا کم ہیں، دور دراز علاقوں میں ہر 1 لاکھ بچوں کی پیدائش پر 5 ہزار زچگی کی اموات خطرناک حد تک بڑھی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کی واپسی نے صحت کے بحران کو مزید بڑھا دیا، خواتین کا طبی شعبہ شدید متاثر ہوا جسکی وجہ سے خواتین کو بنیادی زندگی کے حقوق اور تعلیم میں پابندیوں کا شدید سامنا ہے، خواتین کو ہسپتالوں تک پہنچنے کے لیے پہاڑی رستے کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے وہ رستے میں ہی دم توڑ دیتیں ہیں، سرکاری ہسپتالوں تک رسائی ناممکن ہونے کی وجہ سے خواتین کو بچے کی پیدائش کے لیے اپنی ادویات خود لانے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ڈیلیوری کی لاگت تقریباً 2 ہزار افغانی ($29) روپے ہے، جو کہ بہت سے خاندانوں کی استطاعت سے باہر ہیں۔
ڈلیوری کے چارجز زیادہ ہونے کی وجہ سے 40 فیصد افغان خواتین گھر پر اور 80 فیصد دور دراز علاقوں میں بچے پیدا کرتی ہیں، 2021 میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغانستان میں تشدد سے بچ جانے والی خواتین کے لیے 23 ریاستی سرپرستی کے مراکز تھے جو کہ موجودہ انتظامیہ کے تحت بند کر دیے گئے ہیں، طالبان حکومت خواتین کی صحت کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اسے مغربی تصور قرار دیتے ہیں۔