اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ
کیپشن: اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ

ایک نیوز :وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق  میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگوکرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے،  اقتصادی مفادات کا حصول خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان قطر سمیت جی سی سی ممالک سے بڑی سرمایہ کاری کی توقع کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنا نگران حکومت کی ترجیح ہے۔

نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ   امریکہ کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کے اندر صاف اور شفاف انتخابات پر بات ہوئی۔   عام انتخابات کے حوالے سے کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے،تاہم عام انتخابات آئین کے مطابق ہوں گے۔  چین پاکستان کا دوست ملک ہے، پاکستان چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔  بھارت کے ساتھ  پانچ اگست 2019 کے بعد سے تعلقات زیادہ خراب ہیں۔ بھارت پاکستان سمیت اپنے ملک کے اندر بھی اقلیتوں کے لیے خطرناک ہندتوا پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہاکہ  بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل سمیت سرکریک، سیاچن اور آبی مسائل پر بات چیت ہو سکتی ہے۔امریکہ ،برطانیہ اور عرب ممالک سمیت دیگر ممالک کے سفارت کاروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے معاملے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ مختلف ممالک کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے داخلی امور پر گفتگو نہ کرنے کی انڈرسٹینڈنگ موجود ہوتی ہے۔ وزیراعظم بننا یا نہ بننا الگ بات ہے لیکن پاکستان کے لیے وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملنے پر مطمئن ہوں۔

نگران وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ مجھے نگران وزیر خارجہ بنائے جانے کی خبر ٹیلی فون پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دی تھی۔  انوار الحق کاکڑ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے راستے یومیہ 1800 سے لے کر 2ہزار کنٹینر جا رہے ہیں۔ پاکستان کے راستے جانے والے ان کنٹینرز میں سے کچھ روس کے لیے اور کچھ وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے ہیں جبکہ زیادہ تر کنٹینرز افغانستان کے لیے جا رہے ہیں۔