جسٹس منصور علی شاہ ایک نیوز: سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب! گڈ ٹو سی یو۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس پاکستان نے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب! گڈ ٹو سی یو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھ سے منسوب کیا گیا کہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں نقائص ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے انتظار کیا کہ پارلیمینٹ کچھ کرے،ہم سب ایک جملہ کے پابند ہیں، حکومت قانون کے اندر رہ کر کام کرنے کا نام ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے کہا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجراور نظرثانی ایکٹ"اوورلیپ" کرتے ہیں،میرے سامنے اخبار ہے جس میں مجھ سے منسوب بات چھپی،خبر کےمطابق مجھ سے منسوب کیا گیا میں نے نقائص تسلیم کئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سمجھ نہیں آرہی انگریزی اخبارات میں خبر رپورٹر کے نام سے شائع کیوں نہیں کی جا رہی،معلوم نہیں کیا یہ کوئی سنسر شپ کا نیا طریقہ آیا ہے؟کچھ ترامیم بہت ذہانت کے ساتھ کی گئیں،اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تو تسلیم کیا قوانین میں مطابقت نہیں،جو قانون سازی کی گئی اس سے چیف جسٹس پاکستان کو ربڑ اسٹمپ بنا دیا گیا،ہم نے دیکھا اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے بہت متحرک رہی،پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ری ویو ایکٹ پر نظرثانی ترجیحات میں نہیں تھی،اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمان ری ویو ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی ہر بات مانیں گے مگر یہ بات تسلیم نہیں کریں گے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کا ادارہ صرف نیب ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا استعمال سیاسی مقاصد کیلئے کیا جاتا رہا ہے،اس چیز کو روکنا چاہئے کہ کوئی انتقامی کارروائی نہ کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس مقدمے میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں،اس کیس میں کوئی سیاسی جماعت، مالیاتی ادارہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں اس بات پر فوکس رکھنا ہو گا کہ نیب ترمیم کا ٹارگٹ کون ہیں؟ احتساب جمہوریت کی بنیاد ہوتا ہے،انتخابات اور ووٹ بھی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کے احتساب کا ایک طریقہ کار ہے، نیب ترامیم سے کئی جرائم کو ختم کیا گیا کچھ کی حیثیت تبدیل کی گئی،نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا ہی انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے،کم سے کم حد 50 کروڑ کرنے سے کئی مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے،
چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ نیب ایک ہی ملزم پر کئی مقدمات بنا لیتا ہے جن میں سینکڑوں گواہان ہوتے ہیں،سیکڑوں گواہان کی وجہ سے نیب مقدمہ کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں،اصل چیز کرپشن کے پیسے کی ریکوری ہے،ریکوری نہ بھی ہو تو کم از کم ذمہ دار کی نشاندہی اور سزا ضروری ہے،یہ درست ہے کہ نیب قانون میں کئی خامیاں ہیں اور اس کا اطلاق بھی درست انداز میں نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے فہرستیں طلب کرتے ہوئےریمارکس دیئے کہ نیب قانون سے کس کس نے فائدہ اُٹھایا؟نیب ترمیم کے بعد کتنے کیسز عدالتوں سے واپس ہوئے فہرست فراہم کی جائے،ایک فہرست نیب جمع کراچکا ہےلیکن اسے مزید اپڈیٹ کر کے دوبارہ جمع کرائے۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ نئے نیب قانون میں کون سی ایسی پرانی شقیں ہیں جنہیں ختم نہیں کیا گیا،نئے نیب قانون میں کئی اچھی چیزیں بھی ہیں،نیب قانون کی وجہ سے کئی لوگوں نے بغیر جرم جیلیں کاٹیں،ہم نے دیکھنا ہے کہ نئے نیب قانون سے کس کس نے فائدہ اُٹھایا؟انتخابات اور ووٹ بھی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کے احتساب کا ایک طریقہ کار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم آج کیس کی 50 ویں سماعت کر رہے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب قانون کا غلط استعمال ہو رہا تھا ترمیم لازمی تھیں،اسفند یار ولی اور کئی دیگر مقدمات میں نیب قانون کے بارے میں آبزرویشن دی گئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک ہمیں پتہ نہیں کہ کون سا بنیادی حق متاثر ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ کرپشن کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے،کرپشن سے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں،کرپشن سے آپ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، آپ کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ایک خاص طبقے کے پاس ہے،لوگون کو لیول ہیلنگ فلیڈ نہیں ملتی ،کرپشن سے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے،یہ معاملہ پھر بنیادی حقوق تک پہنچ جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ لیونگ پلنگ فلیڈ سیلاب متاثرین سے لیکر کئی لوگوں کو نہیں ملتی،میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ ہم نے دیکھنا ہے؟کیا ہم کہہ دیں آج سے ان علاقوں میں کوئی رہے ہی نہ جہاں سیلاب آتا ہے،ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آدھا ملک ایسی جگہوں پر آباد ہے،زندگی تو فئیر ہے ہی نہیں،سوسائٹی میں یہ مسائل ہوتے ہی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ قانون سازی سے کسی غلط چیز کا دروازہ تو نہیں کھولا گیا،یہ کہہ دینا کہ احتساب کا بنیادی حقوق سے کوئی نہیں بہت سادہ بات لگتی ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف وہ شخص عدالت آیا جو خود وزیراعظم رہ چکا ہے،جب وہ وزیراعظم تھے وہ خود اور ان کے وزیر خزانہ بھی کہتے تھے نیب قانون سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ماضی کے قوانین نے مجیب الرحمان پیدا کئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب اس تنازعے کے اصل مدعے پر آرہے ہیں،دیکھنا ہو گا کہ آئینی طور پر کس کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے،یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس ٹارگٹ کو کتنے وقت کیلئے اندر رکھا جا سکتا ہے،ایک دو کیسز میں دھوکا دہی کے معاملات میں ثالثی چل رہی ہے ،کچھ لوگوں کیساتھ اربوں روپوں پر ثالثی کے ذریعے مفاہمت کی جارہی ہے، امید ہے آپ کو معلوم ہو گا میں کیا بات کررہا ہوں.
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عمرانہ ٹوانہ کیس میں بنیادی حقوق کو واضح کیا گیا،50سماعتیں ہو گئی ہیں مگر بنیادی حقو ق متاثر ہونے کا کوئی جواب نہیں آیا،نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر ہونے کا دوسری یا تیسری سماعت میں بتا دینا چاہئے تھا،سمجھ سے باہر ہے باقی تمام اہم امور چھوڑ کر نیب ترامیم کو کیوں دیکھا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہئے ناں کہ بااثر افراد کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کریں،مسابقتی کمیشن سے پوچھیں کتنے افراد نے معیشت پر اجارہ داری بنا رکھی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس کے دلائل کو ہی آگے لے کر چلوں تو موسمیاتی تبدیلی بھی مسئلہ ہے،موسمیاتی تبدیلی کے بعد سیلاب اور دیگر وجوہات سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، ان تمام بنیادی حقوق کے بجائے ایک قانون سازی کو کیوں لے کر بیٹھے رہیں؟
مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت ایسے تمام معاملات کو دیکھنا شروع کردے تو دن میں 24گھنٹے کم پڑجائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں کسی بھی احتساب کے ادارے کے پاس ماہر تفتیش نہیں ہیں،صرف سندھ میں تفتیش کیلئے اوپن مارکیٹ سے ماہرین کو ہائر کیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم اس نے چیلنج کیا جو خود پارلیمنٹ سے بھاگا ہوا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم میں کچھ ایسا براتھا کہ جس نے اس عدالت کے دروازے کھولے۔
بعد ازاں عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کل دن 11بج کر 45منٹ تک ملتوی کردی۔