کیا وزیر اعظم کو سائفر کی کاپی دینے کے ثبوت موجود ہیں؟اسلام آباد ہائیکورٹ

Apr 30, 2024 | 18:59 PM

ایک نیوز:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ  عدالت کو دیکھنا ہے کہ سائفر کی کاپی واپس کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وزیر اعظم کو سائفر کی کاپی دینے کے ثبوت موجود ہیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں اپیلوں پر سماعت کی۔
 پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ شمعون قیصرنے بیان ریکارڈ کرایا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کاپی وصول کرنے کے دستخط موجود ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں عدالت کو آگاہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ سائفر کاپی کیسے اور کس کس جگہ گیا، کس کس آدمی نے کیا کہا، میں نے عدالت کے سامنے تمام گواہان کے بیانات نہیں پڑھنے ، میں آج یہ بتاؤں گا کہ سائفر کی کاپی بانی پی ٹی آئی تک کیسے پہنچا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ سائفر موومنٹ سے متعلق جو کچھ آپ بتا رہے ہیں وہ ہمیں لکھنی پڑ رہی ہیں، آپ لیپ ٹاپ سے پڑھ رہے ہیں لیکن ہمیں لکھنی پڑ رہی ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اعظم خان سے سائفر کاپی وزیراعظم کو فراہم کرنے کا ریکارڈ ہے یا نہیں؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے موومنٹ رجسٹر سے تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کر دیں۔
جسٹس میں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ یہ چیزیں تحریری طور پر ہمیں دیدیں، ہم سے لکھنے میں کچھ رہ نہ جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اعظم تک پہنچنا ایشو ہے اعظم سے وزیراعظم تک پہنچنا ایشو ہے، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تمام چیزیں میں پہلے عدالت میں بیان کر بھی چکا ہوں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ جو بتا رہے ہیں وہ پہلے بتا لیں تاکہ ربط نہ ٹوٹ جائے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان نے اعتراف کیا کہ اُن کے اسٹاف نے انہیں وزیراعظم کی کاپی دی، اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی اپنے پاس رکھ لی اور واپس نہیں کی، اعظم خان نے بیان دیا کہ بانی پی ٹی آئی نے جب سائفر کاپی پڑھی تو پُرجوش ہو گئے، اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی پڑھنے کے لیے اپنے پاس رکھ لی، کچھ دن بعد واپس مانگنے پر وزیراعظم نے کہا کہ سائفر کاپی گم ہو گئی، وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اسٹاف اور ملٹری سیکرٹری کو ڈھونڈنے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سائفر کاپی اعظم خان تک آ گئی تو وزیراعظم کو بھی دی گئی ہوگی، بانی پی ٹی آئی نے کبھی سائفر کاپی موصول کرنے سے انکار نہیں کیا، اعظم خان تک سائفر کاپی پہنچنے کی ڈاک کی تفصیلات تو لازمی موجود ہوں گی، کیا سائفر کاپی اعظم خان سے وزیراعظم کو جانے کی بھی کوئی شہادت موجود ہے؟ ۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ سارا کچھ موجود ہے، اِن اور آؤٹ کے رجسٹر موجود ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے وزیر اعظم کو ملنے والے ڈاکومنٹ کی موومنٹ ہے؟ تقاریر انٹرویوز سے واضع پتہ چلتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سائفر دستاویز وزیراعظم آفس جانے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اعظم خان سے وزیراعظم کو کس طرح پہنچا اس متعلق بتا دیں، اعظم خان ملٹری سیکرٹری کا کہہ رہا کہ اسے بتا دیا تھا گم ہوگیا، ملٹری سیکرٹری عدالت نہیں آیا کہ وہ بتاتا کہ اسے کیا کہا گیا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ حسیب گوہر نے بتایا شواہد کے ساتھ کہ 8 کاپیاں واپس آگئیں تھیں مگر وزیراعظم ہاؤس سے نہیں آئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ دستاویزات واپس آنے کی بھی انٹری ہوتی ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کچھ باقاعدہ پراسس کے تحت واپس آتیں ہیں اورکچھ ذاتی حیثیت میں واپس کی جاتی ہیں، شمعون قیصر نے بیان میں بتایا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کاپی وصول کرنے کے دستخط موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری مان رہا کہ سائفر کی کاپی مجھے وصول ہوگئی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا اعظم خان کی گمشدگی کی ایف آئی آر ہوئی تھی اس کا کوئی اسٹیٹس ہے؟
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر اس ایف آئی آر کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جس شکایت پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی وہ بھی ریکارڈ کا حصہ لازمی بنانا ہے، سائفر دستاویز وزیراعظم آفس جانے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اعظم خان سے وزیراعظم کو کس طرح پہنچا اس متعلق بتا دیں، اعظم خان ملٹری سیکرٹری کا کہہ رہا کہ اسے بتا دیا تھا گم ہوگیا، ملٹری سیکرٹری عدالت نہیں آیا کہ وہ بتاتا کہ اسے کیا کہا گیا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے 27 مارچ 2022 کے جلسے کی بانی پی ٹی آئی کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ عدالت کے سامنے پڑھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سیاست دانوں کے کہنے پر کون یقین کرتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایک سیکریٹ ڈاکومنٹ وزیر اعظم کے پاس آتا ہے یہاں تک تو درست ہے ، اب اس کی واپسی اور گم ہونے کا معاملہ رہتا ہے اس پر دیکھنا ہے، سیکرٹری کا کام ہوتا کہ وہ وزیر اعظم کے لیے آئی چیز اس تک پہنچانا ہوتا یے، دالت کو اس چیز کو دیکھنا ہے کہ وہ کاپی واپس کیوں نہیں کی گئی۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں