ایک نیوز: پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے گندم خریداری پالیسی کااعلان کردیا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کی زیر صدارت ساڑھے تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں گندم خریداری کی حکومتی پالیسی سے ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر خوراک بلال یاسین نے کہا کہ حکومت کو چھوٹے کاشتکار کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے اور اسے ہر صورت سپورٹ کیا جائے گا، انہوں نے حالیہ بحران کی زمہ داری نگران دور میں امپورٹ کی گئی 2.3 ملین میٹرک ٹن گندم پر عائد کردی اور کہا اس حوالے سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ایوان کے سامنے رکھیں گے۔
وزیرخوراک کا کہنا تھاکہ میری اپوزیشن لیڈر سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ایشو پر اپوزیشن لیڈر کی بھی تجاویز لی۔پنجاب میں 2کروڑ27لاکھ ٹن کاشت کی جاتی ہے۔ محکمہ خوراک 2 ملین میٹرک ٹن کی خریداری کرتا ہے ۔ایک ملین میڑک ٹن خریداری پر 100 ارب روپے کا قرض لینا پڑتا ہے ۔دو سیزن اگر گندم کو ذخیرہ کیا جائے تو اس پر 80 ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ اس وقت گندم خریداری کی پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔حالات یہ ہے کہ کسان اور کاشتکار کے ساتھ شہروں میں بھی حکومت کو برا بھلا کہا جارہا ہے۔ ہم گندم کی امپورٹ کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ امپورٹ نہیں ہونی چاہیے تھی۔
اپوزیشن نے حکومت کی گندم خریداری پالیسی کو مسترد کردیا۔
پالیسی بیان آنے کے بعد اپوزیشن نے اس پر بات کرنے کی اجازت چاہی جس پر سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے یہ کہتے ہوئے ملتوی کردیا کہ گزشتہ چار روز سے اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔
بحث کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن لیڈر کی زیر سربراہی اپوزیشن ارکان نے مال روڈ پر احتجاج کیا۔
پنجاب اسمبلی میں ایک بار میاں اسلم اقبال کے حلف پر سپیکر نے کہا کہ میاں اسلم اقبال نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا اگر وہ حلف اٹھا لیتے تو میرے پاس انکی پروڈکشن کے آرڈر جاری کرنے کا اختیار موجود ہے۔ میں اپنے اختیارات اسی صورت استعمال کرسکتا ہوں جب رکن حلف اٹھا چکا ہو۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ میاں اسلم اقبال ایوان میں حلف اٹھانے والے آخری ممبر رہ چکے ہیں۔ اگر سپیکر اس معاملے میں دلچسپی لیں تو میاں اسلم اقبال کا حلف ویڈیو لنک پر لیا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن رکن ذوالفقار بھٹی نے کہا کہ سپیکر صاحب نے گزشتہ روز یقین دہانی کروائی تھی کہ اپوزیشن کے ارکان پر مقدمات درج نہیں ہوں گے ۔اس کے باوجود مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر اور دیگر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس کسان کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ایوان میں بتائی گئی پالیسی کے خدو خال انتہائی مبہم ہیں۔
اپوزیشن لیڈر احمد خاں بچھڑ کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھاکہ ٹک ٹاک حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہم ناکام ہیں۔پنجاب میں پہلی دفعہ حکومت گندم نہیں اٹھا رہی۔ظالم حکومت کسانوں سے ظلم کر رہی ہے۔کسان اٹھیں باہر نکلیں۔پالیسی کون نہیں ہے20روز گزرنے کے باوجود کوئی پالیسی نہیں ہے۔ہم احتجاج جاری رکھیں گے سڑکوں پر کسان کے ساتھ کھڑے ہیں۔مال روڈ پر دھرنا دیں گے۔ ۔وزیر نے بیس دن بعد تقریر کی کوئی پالیسی نہیں دی۔
اپوزیشن ارکان نے کچھ دیر تک مال روڈ پر دھرنا بھی دیا جس کے بعد اپوزیشن کے ممبران پرامن طور پر منتشر ہو گئے ۔