ایک نیوز:سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا ہے کہ ہمیں اب آگے بڑھنا ہے، ہم کسی سیاسی قوت یا کسی مخصوص ایجنسی کیلئے ہیر پھیر نہیں کرنے دیں گے۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف لکھے خط سے متعلق ازخودنوٹس کیس پرچیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت شروع ۔
چھ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی چھ رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے،عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں ذاتی گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے،گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے،عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں ذاتی گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے،گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔وضاحت کرنا چاہتا ہوں کے 184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا،کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا ،دستیاب ججز کیس سنیں گے،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں،ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیے لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے ان پر ہم میں سے بھی لوگوں نے دباو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں،چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی،پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، کیاآپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات دیکھی ہے؟ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
اٹارنی جنرل نےکہاہائی کورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھی۔
اب اس معاملے کو کیسے آگے بڑھاے، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
جسٹس اطہر من اللہ نےکہااٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس نےکہا ہم نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟
اٹارنی جنرل کہاجی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کسی جج نے اختلاف نہیں کیا،جسٹس اطہر من اللہ کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیےمیں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، لوئر جوڈیشری کے بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں کیا یہ مداخلت نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نےریمارکس دئیےلاہور ہائیکورٹ کی گزارشات سے میں سمجھاہوں کہ مداخلت ایک کھلا راز ہے اور اب اس کا حل ہونا چاہیے ۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیے کہ میرے خیال سے اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے،جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، جب ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی بناتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، میں نے پہلے دن واضح کیا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں ہو گی اور میرے دور میں کوئی شکایت نہیں، یہ شکایتیں پہلے کے دور کی ہیں،میں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح سے اس عدالت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا گیا،عدلیہ کی آزادی کیلئے اسکا بااخیتار ہونا بھی ضروری ہے ،کیا ایک چیف جسٹس کسی جج کو کہہ سکتا ہے کہ کیس اس طریقے سے چلاے ، اگر عدالت آزاد ہو تومکران کا بھی سول جج اتنا بااخیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے، میری نظر میں مانیٹرنگ ججز بھی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہے، عدلیہ میں بھی خود احتسابی کے نظام پر عملدرآمد کرنا ہوگا ،پہلے دن سے واضح کرچکا ہو کہ بطور جج کسی قسم کی مداخلت اور دباو برداشت نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نےکہایہ سارا معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہااس کیس میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ معاملے کو حل کریں، ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑا کرنی ہو گی، ہمیں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا،ہمیں طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو اس کے خلاف کیسے ایکشن لینا چاہئے۔
سپریم کورٹ کا ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز پبلک کرنے کا حکم
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیے ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟
اٹارنی جنرل نےکہاہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا جسٹس اعجاز اسحاق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں۔
چیف جسٹس نےکہا کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟
اٹارنی جنرل نےکہاسب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نےکہا تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے،کوئی رسپانس نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہئے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں، آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔
چیف جسٹس نےکہا ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی چیزوں پر نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہااٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں،ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت ایک مسلسل جاری معاملہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دئیےکہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشا کی گئیں، جسٹس بابر ستار کے معاملے کی طرف اشارہ ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاسپریم کورٹ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ دو بینچ کے ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا،ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے،فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں،جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔
جسٹس مسرت حلالی نےکہایہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب خود کیوں نہیں کرتے سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہامسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائیکورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے،ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے جو تجاویز لکھی ہیں بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹوکیس کے ثمرات ہیں،
چیف جسٹس نےریمارکس دئیےمیں پانچ سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، مجھے پتہ ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے، چیف جسٹس اور زیادہ تر سپریم کورٹ سے مداخلت ہوتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔
جسٹس مسرت ہلالی نےکہامیں سمجھتی ہوں کہ جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں۔ آپ میں اتنی ہمت ہو کہ آپ اسکو فیس کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہایہ کیسی ریاست ہے جہاں فون سننا بھی آسان نہیں، فون سنتے ہوے بھی خوف ہوتا کہ کہی ٹیپ تو نہیں ہو رہا، فون پر بات کرنے کیلئے محفوظ مقام ڈھونڈنا پڑتا ہے،آج تک میرے کسی کام میں کوئی داخلت نہیں ہوئی ۔
جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دئیےکہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشا کی گئیں، جسٹس بابر ستار کے معاملے کی طرف اشارہ ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاسپریم کورٹ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ دو بینچ کے ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا،ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے،فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں،جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔
جسٹس مسرت حلالی نےکہایہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب خود کیوں نہیں کرتے سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہایہ کیا ہورہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہئیے ؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ ریمارکس انٹیلی جنس ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہوتےہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اسکے ذمہ دار وزیراعظم اور انکی کابینہ ہے،آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا ، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کا امیج بھی برقرار رکھنا ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے جو ملک کے محافظ ہیں ، یہ ہمارے سولجرز ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیےپشاور والے جج صاحبان کہہ رہے ہیں اگر دھرنا فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا ہوتا۔
اب آپ بتانا پسند کریں گے کہ اس فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی،چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس نےکہااب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں ، چار سال سے زائد نظر ثانی سماعت کے لئے مقرر ہی نہیں ہوئی،کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً پانچ سال سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوئی،کیا اس کے لئے بھی ایگزیکٹو ذمہ دار ہے، یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،دنیا کو کیا نہیں پتہ تھا کہ اسوقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا ،مگر شائد آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں ، میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں ،میں نے لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اسکے پیچھے تھے ، یہ معاملہ حکومت کے بعد چھوڑ دیا گیا ،میری اہلیہ نے بھی پولیس اسٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا ،جب لوگ پٹری سے ہٹ جاے تو پھر قانون سازی ک ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی،جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےریمارکس میں کہاانٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ اور اگر یہ ادارے مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےاٹارنی جنرل سےسوال کیا آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017/18 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی اس وقت حکومت میں کون تھا؟
اٹارنی جنرل نےجواب میں کہا اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟ بدقسمتی یہ ہے کہ سچ سب کو پتہ ہے لیکن بولتا کوئی نہیں ہے ، جو بول پڑتاہے اسکے ساتھ وہی ہوتا جو چھ ججز کیساتھ ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیےبیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دئیے جاتے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاپریشر کبھی بھی نہیں ہو گا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیئے،سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاجب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا۔
اٹارنی جنرل نےکہااس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں۔جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نےکہاوہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا آپ نے تین ہائی کورٹس کی تجاویز پڑھیں کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہو رہی، اس کا مطلب ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہاکسی ہائی کورٹ نے یہ بھی نہیں کہا کہ مداخلت کا مسئلہ ہم خود حل کر لیں گے،ہمیں ایک نظام بنانا ہو گا جس سے مداخلت کا دروازہ بند ہو جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دئیےاٹارنی جنرل صاحب سچ بتائیں کیا لوگوں کا اعتماد ہے کہ عدلیہ ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔
بینچ کی بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز کے جواب کی خوبصورت انگریزی کی تعریف ملک میں تین ایجنسیاں ہیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان نےکہاآئی بی ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنی، ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتائیے، یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں ۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذکر سے روک دیا سپریم جوڈیشل کونسل الگ فورم ہے اسے تجاویز دینی ہیں تو الگ دیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہاہم یہاں انتظامی نہیں جوڈیشل سائیڈ پر بیٹھے ہیں کوئی بھی آرڈر پاس کر سکتے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاہم کونسل کےفیصلوں کو ختم بھی کرتے ہیں ان میں ترمیم بھی کرتے ہیں، ہم اہم معاملے پر ایگزیکٹو کو ایڈوائس دے سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی سب کریں گے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے جواب میں اکبر الہ آبادی کے شعر کا حوالہ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام ۔ یہی بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے ،جسٹس جمال خان مندوخیل کا دلچسپ تبصرہ
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا سوشل میڈیا پہ پتہ نہیں کیا کیا لکھا جا رہا ہے لوگ فریق بنے ہوئے ہیں، یہ لوگ پارٹی کیوں بن جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیےکچھ لوگ خاموشی سے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اب ختم ہو چکے ہیں،ججز کی تعیناتی کے لئے جب ہم خفیہ اداروں سے رپورٹیں منگواتے ہیں ہم ان کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں،جب آپ مانیٹرنگ جج لگوائیں گے، جب جے آئی ٹیز میں ان کو شامل کریں گے تو ان کو مداخلت کا موقع ملے گا،کچھ لوگ ذاتی مفادات کے لئے آئینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہیں، کچھ لوگ ایک خاص وقت میں ایک مقام پر کھڑے تھے، آج ایک دوسرے مقام پر کھڑے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہااٹارنی جنرل صاحب میرے دو سوال ہیں ، لاسٹ ٹائم آپ نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی، پریس کانفرنس میں کہا کہ چھ ججز نے مس کنڈکٹ کیا۔
اٹارنی جنرل نےکہاپریس کانفرنس میں اگر چھ ججز کے خط کو مس کنڈکٹ کہا گیا تو غلط تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاپشاور ہائی کورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے،
وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہاایجنسیوں کو بیانات حلفی دینے دیں کہ ان کی طرف سے مداخلت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نےکہا اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں تو کہوں گا کہ مداخلت ہوئی لیکن ہمیں مستقبل کا دیکھنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دئیےاسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر حکومت سمیت متعلقہ اداروں سے جواب لینا چاہیے۔
چیف جسٹس نےکہاحکومت سے جواب لے لیتے ہیں،کیس میں مختصر وقفہ کرتے ہیں پھر واپس آتے ہیں۔
وقفہ کےبعددوبارہ سماعت شروع ہوگئی۔
اٹارنی جنرل نےکہاسپریم کورٹ ججز خط پر تحریری جوابات دے دیتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیے جن لوگوں نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں خود اس پر فیصلہ کر لیں،سب فریقین کو سننا مشکل ہوجائے گا، تمام فریقین تحریری معروضات دے دیں۔
اٹارنی جنرل نےکہا میں نے تصدیق کی ہے کہ ججز کے مس کنڈکٹ کی بات پریس کانفرنس میں نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نےکہاپاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سے تجاویز مانگ لیتے ہیں،کوئی اور فریق رائے دینا چاہے تو دے سکتا ہے، ہم اس معاملے کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ہم کسی کو بولنے سے روک نہیں رہے مگر تمام فریقین کو سننا ممکن نہیں ہوگا،کوئی اس عدالت میں ایسا ہو جو عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتا تو بتا دے،ہم سب کمرہ عدالت میں بیٹھے لوگ عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دیتے ہیں۔