لاپتہ افرادبازیاب نہ ہوئےتووزیراعظم،وزیرداخلہ کےخلاف مقدمہ درج کرائیں گے:اسلام آبادہائیکورٹ

Nov 29, 2023 | 12:40 PM

JAWAD MALIK

ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ کے  جسٹس محسن اختر کیانی نے طلبہ بازیابی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پیشی کی گئی رپورٹ سے لگتا ہے پاکستان میں کوئی قانون نہیں، اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ کوئی لاپتہ شخص عدالت پہنچ کر کہے کہ میں کارروائی نہیں کرانا چاہتا۔اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیرداخلہ کےخلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں طلبہ بازیابی کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست پر سماعت کی، نگران وزیرداخلہ اور سیکرٹری داخلہ عدالتی احکامات پر پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے لاپتہ افراد سے متعلق نئی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ 22افراد گھروں کو پہنچ چکے، 28ابھی لاپتہ ہیں،28لاپتہ افراد کی تفصیلات موجود نہیں،شناختی کارڈ نمبر بھی نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ پیش کی گئی رپورٹ سے لگتا ہے پاکستان میں کوئی قانون نہیں،لاپتہ افراد میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ ہیں، کیا وہ پاکستانی نہیں؟قانون موجود ہے، کسی نے کوئی خلاف قانون کام کیا ہے تو ٹرائل کریں،آپ یہاں کم وقت کیلئے ہیں، قانون کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے،اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ کوئی لاپتہ شخص عدالت پہنچ کر کہے کہ میں کارروائی نہیں کرانا چاہتا۔

عدالت نے نگران وزیر داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ جو بھی بتانا ہے عدالت میں بتائیں۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہاکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوشش کررہے ہیں،بہت سے ایسے افراد ہیں جو عدالتی مفرور ہیں اور کچھ افغانستان چلے گئے۔

جسٹس محسن  اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی شخص قانون سے اوپر اور ماورا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آ سکے،میں یقین دہانی کراتا ہوں تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے،کمیشن کی رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے گئی تھی،کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو یہ معاملہ بھیجا گیا ،کمیشن کو آرڈر تھا کہ ایکشن سے متعلق تجاویز دیں۔

عدالت نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے رپورٹ دیکھی ہے؟ 

نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے رپورٹ کا جائزہ لیا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوقِ کا معاملہ ہے،جس کا پاکستان میں جو دل کررہا ہے وہ کررہا ہے،اس کیس میں سارے طالبعلم ہیں، یہ ہمارے اپنے شہری ہیں،سارا الزام سیکیورٹی ایجینسی پر آرہا ہے،یا تو بتائیں کہ دوسرے ملک کی ایجنسی نے بندے اٹھائے ہیں۔بلوچستان کا بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے اور یہاں انتظامیہ 365 کے تحت ایک کاروائی کرکے منہ دوسری طرف کر لیتی ہے۔کیا ہم خود پہلے لاپتہ ہونگے تو تب ہمیں پتہ چلے گا کہ کیا ہوا،وزیر داخلہ صاحب بتائیں آپ ۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آج بائسویں تاریخ پر وزیر داخلہ بتا رہے ہیں کہ گمشدہ طالب علموں کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا، یہ ہے ریاست کا جواب؟ اس معاملے پر ایک کمیشن بھی بنا تھی اور یہ اسٹیٹ کی ذمے داری تھی،عام آدمی کے پاس تو اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ خود جا کر گمشدہ لوگوں کو تلاش کرے۔

وزیر داخلہ روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ بہت ساری باتیں کمیشن کے سامنے نہیں تھی، ہم ہر لاپتہ شخص کو تلاش کرینگے،کسی ایجنسی کو کوئی استثنی نہیں ہے کہ کسی کو بھی اُٹھا کر لے جائیں اور پھر کسی تھانے کے ایس ایچ او کے حوالے کر دیں، ایسے طرزِ عمل پر ذمے داران کیخلاف بھی کارروائی ہو گی۔کوئی بھی مرا نہیں، ہماری کوششوں سے چالیس لوگ سامنے آ گئے۔

 جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالت میں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپکے اپنے اداروں کے پاس ہیں لوگ وہ عدالتوں میں کیوں نہیں آئے؟ ایک مخصوص ادارے پر الزام ہے کس سے تحقیقات کرائیں، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے ماتحت اداروں سے پوچھیں ہر کیس کے بارے میں، ابھی تک کوئی رزلٹ نہیں نکلا اور نہ ہی کسی ایسے شخص کے خلاف عدالت میں کوئی کیس ثابت کیا گیا گیا ہے، عالمی قوانین بہت مختلف ہیں اور آخر میں ہم انہیں قوانین کے تحت جوابدے ہونگے۔

نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک بھی شخص لاپتہ ہے اس کی کوئی جسٹیفکیشن نہیں ہے،ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس بندہ لیکر جاتی ہے بعد میں بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے،تھانے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہاں بندہ ہی نہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ انشاللہ ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے،جو بھی لاپتہ ہیں یا جبری طور پر گمشدہ کئے گئے ہیں ،ان کی بازیابی کیلئے کوشش کررہے ہیں،بہت سارے ایسے افراد ہیں جو عدالتی مفرور ہیں ،کچھ افغانستان چلے گئے ہیں ،ان افراد کے خاندان کی طرف سے لاپتہ افراد کمیشن میں درخواست دے دی جاتی ہے تو یہ لاپتہ کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں،ہم کوشش کریں گے کہ کیس ٹو کیس اس معاملے کو دیکھیں۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ یہ ملک شہداء کی بنیاد پر چل رہا ہے،ملک کے امن کے اداروں کی قربانیاں ہیں،پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کی شہادت کی وجہ سے سسٹم چل رہا ہے،ایک ایک کیس کو دیکھیں اور حل کریں،کوئی شخص کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہے اس کیخلاف عدالتی کارروائی کریں۔

عدالت نے وزیر داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور وزیراعظم بلوچستان سے ہیں کل آپ نے واپس جانا ہے،ادارے سارے سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہیں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں،ججز نے جا کر بندے ریکور نہیں کرنے ہم ججمنٹس دے سکتے ہیں،یہ ملک شہدا کی بنیاد پر چل رہا ہے پاک فوج نے جو قربانیاں دیں اس سے انکار نہیں ہے،کوئی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تو قانون کے مطابق کارروائی کریں لیکن عدالت پیش کریں۔

نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ایک ایک کیس کو ہم دیکھیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ اداروں کے پاس ہیں انکو عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ جن اداروں پر الزام ہے انہوں نے ہی تفتیش بھی کرنی ہے، پاک فوج یا دیگر شہداء نے جو قربانیاں دیں انہی کی وجہ سے ہم چل رہے ہیں،اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے پہلو کو چھوڑ دیا جائے۔بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد اپنے آپ کو مستثنیٰ نہیں کرسکتے ،کوئی مرجائے تو خاندان کو بھی تسلی اور یقین آجاتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد کے خاندان ساری زندگی ٹراما میں رہتے ہیں،میں نے اپنا مائنڈ بتا دیا ہے ،اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اور وزیر داخلہ کیخلاف مقدمہ درج کرائیں گے ،پھر آپ کو اور وزیراعظم کو گھر جانا پڑے گا ،بڑے واضح الفاظ میں آپ کو یہ بات سمجھا رہا ہوں ،نتائج کچھ بھی ہوں لیکن ہم قانون کی حکمرانی کیلئے کوشش کررہے ہیں،ایک ہفتے میں آپ ان افراد سے ملاقات کریں اور مسئلہ حل کرائیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیئے کہ وزیر داخلہ یہاں موجود تمام فیملیز سے 2 دن میں ملیں،باقی فیملیز سے بلوچستان میں جا کر ملیں اور یہ مسئلہ حل کریں،جنوری کی تاریخ رکھتے ہیں اس سماعت پر ہمیں نتائج چاہئیں،آپ سیکرٹری دفاع کو ہدایات جاری کریں اپنے ماتحت اداروں کو بلا کر ان سے پوچھیں۔

نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ لاپتہ ہونے والے معاملے پہ حکومت کوشش کریگی۔ڈیولپمنٹ صرف بلوچستان نہیں پورے ملک کا معاملہ ہے۔ترقی کا نہ ہونا شرپسند عناصر کو تقویت دیتا ہے۔بلوچستان کی ترقی کے لیے مخصوص وقت اور زرائع مکمل کام کرینگے۔گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو کھانے پر دعوت دے کر ہر فرد سے بات کرونگا۔

بعد ازاں عدالت نے بلوچ طلبہ جبری گمشدگی کیس کی سماعت 10 جنوری تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں