ایک نیوز :چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کاکہنا ہے کہ فوج 70برس سے بلواسطہ یا بلاوسطہ حکومت میں رہی۔ اور فوج کا حکمرانی میں کوئی لینا دینا نہ رہے یہ سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا بی بی سی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں پی ٹی آئی کو چھوڑ جانے والے رہنماؤں کے بعد خالی ہو جانے والے عہدوں پر وہ تقرریاں کریں گے تاکہ نوجوانوں کو آگے لایا جا سکے۔فی الحال وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ نئے عہدیداروں) بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔ ممکن ہے یہ مجھے جیل میں ڈال دیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کامذاکرات کے سوال پرکہنا تھا کہ میری پوزیشن اس وقت کمزور ہو گی جب میں اپنا ووٹ بینک کھو دوں گا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کمزور اس وقت ہوتی ہے جب اس کا ووٹ بینک سکڑنے لگتا ہے۔ آپ سمجھتی ہوں گی کہ یہ میرے لیے بڑا بحران ہے، مگر میں ایسا نہیں سوچتا، درحقیقت ہمیں مارشل لا کا سامنا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ اس سب سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشی اعشاریے بدترین صورتحال کا بتا رہے ہیں میں یہ جاننے کے لیے متجسس ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہمیں ریس سے باہر رکھنا ملک کے لیے کیسے فائدہ مند ہو گا۔‘
عمران خان کہنا تھا کہ میں حکومت سے مذاکرات چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ سوچ کیا رہے ہیں۔ میں نے کہا مجھے اس بات پر متفق کر لیں کہ یہ سب پاکستان کے لیے درست ہے تو میں متفق ہو جاؤں گا۔‘ ماضی میں اپنے سپورٹرز سے کوئی ایسی بات نہیں کی جس کا نتیجہ نو مئی جیسے واقعات کی شکل میں سامنے آتا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کاکہنا تھا کہ ریڈ لائن جیسی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے، جہاں لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور اگر ایسی صورتحال میں وہ مجھے جیل میں بند کریں گے تو اس کا ایک ردعمل ہو گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے تو کیا میں یہ کہتا کہ میں ریڈ لائن نہیں ہوں۔ مجھے کیا کہنا چاہیے تھا؟‘سیاسی اپوزیشن ہونا، عوامی اجتماعات کا انعقاد کرنا، اپنے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور انھیں آئندہ آنے والے الیکشن کے لیے متحرک کرنا۔ یہ سب چیزیں کیسے اور کب سے جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا باعث بن گئی ہیں؟ درحقیقت جمہوریت اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب اپوزیشن ہی باقی نہ رہے۔‘
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ہر صورت میں موجودہ سال الیکشن کا سال ہے۔ چنانچہ ہم ہر صورت میں اس الیکشن کے لیے مہم چلائیں گے۔ ہماری پوری جماعت، تمام سینیئر لیڈرشپ کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے، اگر قانون کی حکمرانی ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔‘ہمارے دور میں اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جو کیس تھے ان میں سے 95 فیصد ایسے تھے جو ہمارے اقتدار میں آنے سے پہلے بنے ہوئے تھے۔‘’ہم نے ان کے خلاف نئے کیس نہیں بنائے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چند مہینوں میں میرے خلاف 150 سے زائد کیس بنائے گئے ہیں، ایسا ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ آپ کو حقائق درست رکھنے چاہئیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کے الزاما ت تحریک انصاف پر درست ن ہیں۔ اس کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے، جس روز مجھے حراست سے رہائی ملی تھی اس روز میں نے یہ مطالبہ کر دیا تھا۔ اس بات کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے کہ جلاؤ گھیراؤ میں کون ملوث تھا۔‘آپ اس نوعیت کے دہشت پھیلانے والے حربے کچھ وقت کے لیے تو کامیابی سے آزما سکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا ٹویٹ میں کہنا تھا کہ فاشسٹ حکومت کا، جنرل (ر) پرویز مشرف کے مارشل لاء سے بھی بدتر، ایک نکاتی ایجنڈا ہے جو پی ٹی آئی کو کچلنا ہے۔
عمران خان کاکہنا تھا کہ ملکی معیشت تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے، اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 315 روپے کا ہو گیا ہے جبکہ شناختی کارڈ ہولڈرز کو 320 روپے سے 325 روپے کے درمیان مل رہا ہے۔ آفیشل ریٹ اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق 30 روپے ہے۔معیشت کے اس ڈالرائزیشن کا مطلب ہے کہ ملک میں مقامی یا غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہو، جس کے نتیجے میں جی ڈی پی مزید تنزلی کا شکار ہو جائے گی اور اس سے بھی بدتر افراط زر کا باعث بنے گا۔
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے پاس اربوں ڈالر بیرون ملک جمع ہیں، پیسے کی گراوٹ سے حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ سوال یہ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کس طرح ملک کو مکمل معاشی بدحالی کی طرف جانے دے رہی ہے؟