ایک نیوز: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات نے کہا ہے کہآئین کا یہ تقاضا نہیں کہ کوئی فردواحد پاکستان کو کنٹرول کرے۔آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات عرفان قادر نے پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے ایک نادر موقع ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ اس وقت جو ملکی صورتحال ہے اس کے پیش نظر ضروری تھا کہ میں اپنے خیالات آپ سے شیئر کرتا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے۔ تمام مختلف ممالک ہیں لیکن وہاں تمام ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ حاکمیت اللّٰہ کی ذات کی ہے۔ جو لوگ ادارے میں اپنے دائرہ اختیار میں کام کررہے ہیں۔ ان کی عزت ہے۔ ہم سب من الحیث قوم انسان ہیں اور ہمیں آئین کو فوقیت دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے دس سالوں کے چند ضروری کیسسز ڈسکس کروں گا۔ جس سے یہ ثابت کروں گا کہ کس طرح بنچز بنتے رہے۔ ان چند کیسز میں کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت لگائی گئی۔ آئین میں آرٹیکل موجود ہیں لیکن اس وقت کی سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اپنے اوپر لے لیا۔ مختصراً آپ کو بتا دوں کہ وہ سپریم کورٹ کے کہنے پر سپریم کے پیغامات باہر پہنچاتے رہتے۔وزیراعظم کا منصب یہ نہیں کہ سپریم کورٹ کا پیغام دنیا کو دیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ کوئی فرد واحد پاکستان کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ دوسرا معاملہ پانامہ کیس کا آیا تھا۔ پانامہ کیس میں نواز شریف پابند سلاسل ہو گئے اور عمران خان وزیراعظم بنے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں پولیٹیکل انگیجمنٹ ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن پانامہ کیس میں مانیٹرنگ جج تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس کے ذریعے پولیٹیکل انجینئرنگ کا تجربہ کیا گیا۔ پانامہ کیس کے ایک جج آج بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ جو سب سے آگے ہیں۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حکومتیں عدم اعتماد سے تو جاسکتی ہیں لیکن عدالتی فیصلوں سے نہیں۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار کو آپ سب ہی جانتے ہیں میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ نوازشریف کی نااہلی کی مدت کے کیس میں 5ججز نے عمر بھر کی نااہلی کا فیصلہ دیا جو آئین میں موجود ہی نہیں تھا۔ نواز شریف کے پارٹی ہیڈ بننے پر بھی پابندی لگائی گئی لیکن اس سب کے باوجود وہ سیاسی طور پر زندہ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بنی گالہ کے گھر سے متعلق کیس میں بھی تقریبا یہی ججز تھے۔ بنی گالہ پراپرٹی کیس میں بھی جسٹس ثاقب نثار، جسٹس بندیال اور جسٹس فیصل عرب تھے۔ ایک اور کیس میں ڈیم فنڈ کیس میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ ڈیم بنانے جارہی تھی۔ اس بینچ میں بھی جسٹس بندیال، ثاقب نثار اور منیب اختر تھے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ڈیم فنڈ کا کیس عدالت کا بنتا تھا؟ اس طرح کے ہر کیس میں ثاقب نثار اور جسٹس بندیال شامل رہے۔
انہوں ںے بتایا کہ چیف جسٹس کو حد سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسمبلی میں کوئی ووٹ دیتا ہے تو اس کی حکومت بن جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ الیکشنز کا کہیں نہیں لکھا کہ الیکشنز کی تاریخ سپریم کورٹ دے گی۔ نہ ہی صدر کا دائرہ اختیار انتخابات کی تاریخ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشنز کے کیس میں 9 ممبر بینچ بنایا گیا تھا۔ اگر سپریم کورٹ میں ایک تضاد تھا چیف جسٹس کا کام تھا کہ اس مسلئے کو حل کیا جاتا۔ چیف جسٹس معاملہ حل کرنے کی بجائے حکومت کے پیچھے نوٹسز کرتے رہے۔ جو آرڈر قانون کے مطابق نا ہو اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
عرفان قادر نے واضح کیا کہ پک اینڈ چوس سے بینچ نہیں بن سکتے۔ چیف جسٹس نے خود کہا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اس پر ریویو ڈال دیں۔ حکومت ہرگز عدلیہ کے خلاف نہیں کھڑی ہوئی۔ تاہم اگر کسی کے پاس پاور ہے تو یہ ہرگز مقصد نہیں کہ اپنی ایگو کے لیے استعمال کرے۔ خواہش ہے کہ عدلیہ کی ساکھ اچھی رہے۔