ایک نیوز: نومئی کےواقعات کی تحقیقات کےلئے بنائی گئی 53 جے آئی ٹیز کی قانونی معاونت کےلئے پراسیکیوشن ٹیم تشکیل دے گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی پنجاب پراسیکیوشن کےسربراہ خرم خان نے 35رکنی پراسیکیوشن ٹیم تشکیل دے دی ہے۔پراسیکیوشن ٹیم نومئی کےدرج مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کےلئے جے آئی ٹی کی رہنمائی کرے گی۔انسداد دہشت گردی پنجاب پراسیکیوشن کےسربراہ خرم خان کےدستخط سے 35رکنی ٹیم کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے۔
پراسیکیوشن ٹیم شہادتوں،شناخت کےعمل اور ثبوتوں کواکٹھاکرنے کےلئے جے آئی ٹی کو رہنمائی فراہم کرے گی،زبیر احمد، غفور احمد، عامر حسین، شاہد عوف شاہ سمیت 35پراسیکیوٹرز ٹیم میں شامل ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ میں 9 مئی کے واقع کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے درخواست پر سماعت ہوئی جس پر عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرتے ہوئے عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے شہری افضال پاہٹ کی درخواست پر سماعت کی،درخواست گزار کی جانب سے ایڈوکیٹ نعمان شمس قاضی عدالت پیش ہوئے۔درخواست میں نگران وزیر اعلیٰ، سیکرٹری ہوم،چیف سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے ۔ درخواستگزار نے موقف اپنایا کہ 9 مئی کو عمران کی گرفتاری پر پی ٹی آئی نے احتجاجی مظاہرہ کیا،پر امن احتجاج اچانک فساد میں تبدیل ہو گیا۔احتجاج میں شامل شرپسند عناصر نے جلاؤ گھیراؤ کیا،شرپسند افراد نے جناح ہاؤس اور متعدد گاڑیوں کو نظر آتش کیا۔
درخواستگزار کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت تمام واقع کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے۔اس موقع پرسرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا رپورٹ جمع کروائی گئی ہے؟۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ہونے کے باعث جواب جمع نہیں کروایا،اگر درخواست گزار اس پر جواب چاہتا ہے تو میرٹ پر کاروائی آگئے بڑھاتے ہیں۔احمد اویس کا کہنا تھا کہ ابھی معاملہ پر سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہوئی اور کسی جج کے سامنے زیر التواء نہیں ہے،یہ معاملہ جلد ہونا پورے پاکستان کے لیے بہتر ہے۔عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ میں حامد خان کی جانب سے درخواست دائر کی جاچکی ہے،آپ میرے سینئر ہیں۔سپریم کورٹ میں زیر التواء ہونے پر ہائیکورٹ کیسے معاملے کو سن سکتی ہے؟آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سماعت نہیں ہو سکتی ہے۔