ایک نیوز: بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کا کہاں اختیار ہے کہ وہ ڈیم فنڈ بنائے۔ چیف جسٹس کی مرضی کے قانون کی روایت توڑنے جارہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں آمریت قائم کی۔ ہم آئین، آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا کی بات کرتے رہے مگر ہمارے جمہوری جواب میں غیر جمہوری اقدام اٹھایا گیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی تاریخ میں ہم نے جمہوری دور اور آمرانہ دور بھی دیکھا۔ پاکستان کی عوام تاریخی معاشی بحران کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کچھ ہمارے فیصلوں کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ ہم پر نااہل وزیراعظم مسلط کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس سیلاب سے ہر سات میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا۔ سیلاب کے سبب آج بھی ہماری معیشت شدید مسائل سے دوچار ہے۔ تحریک طالبان اور دیگر دہشتگردوں نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ہم اور ہمارے افواج نے وہ کام کرکے دکھایا جو نیٹو بھی نہیں کر سکا۔ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہم پر بدتر وزیراعظم مسلط کیا گیا۔ جو دہشت گرد ملک بھر میں عوام کے خون کی ہولی کھیل رہے تھے انہیں معاف کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ان حکمرانوں نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو مسلط کیا۔ جب قبائلی علاقوں میں ترقی آ رہی تھی، ایک نالائق سلیکٹڈ وزیراعظم کو مسلط کردیا گیا۔ ہمیں معاشی کے ساتھ جمہوری بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی بار سیاسی استحکام کی وجہ سے ملک میں سی پیک آیا۔ جیسے ہی ہم نے میثاق جمہوریت کیا صوبوں کو این ایف سی دلایا۔ ہم نے 1973 کے آئین کو پوری طرح بحال کیا۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ جمہوریت کیخلاف ہائبرڈ وار شروع کی گئی۔ ان کی کردار کشی کرائی گئی، کیسز بنوائے گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی عوام کا جمہوریت سے اور ایوان سے اعتماد اٹھ جائے۔ سپریم کورٹ میں آمریت افتخار چوہدری نے شروع کی۔ افتخار چوہدری بھی اسی ہائیبرڈ وار کا حصہ تھا۔ ان کا مقصد میثاق جمہوریت کا خاتمہ تھا۔ جنرل فیض حمید پاشا چلے گئےعمران خان باقی ہے۔ جنرل حمید گل، جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل فیض کا جو کردار رہا وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی اس میں شامل ہے جس نے سپریم کورٹ میں آمریت قائم کی۔ آج جو ججز مناپلی کا گلہ کرتے ہیں وہ افتخار چودھری نے قائم کرایا۔
انہوں نے کہا کہ اس کرکٹر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لے کر آئے۔ 30 سال تک ہمارے ادارے اس جرم میں شامل تھے۔ کچھ آئن سٹائن ہمارے اداروں میں بیٹھے ہیں جو پھر سٹرٹیجک ایسڈ بناتے ہیں جو یہ کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ ہم آئین، آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا کی بات کرتے رہے مگر ہمارے جمہوری جواب میں غیر جمہوری اقدام اٹھایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک سلیکٹڈ کو ہٹایا تو کوئی غیر جمہوری اقدام نہیں اٹھایا۔ ہم نے گیٹ نمبر 4 کو کھٹکھٹایا نہ ہی کوئی دھرنا دیا بلکہ تحریک عدم اعتماد لائے۔ وزیراعظم صاحب ایک سال ہوگیا، ہماری اپوزیشن نے آئین توڑا، مگر ہم خاموش رہے کہ سیاسی انتقام ہوگا۔ اگر کسی نے آئین توڑا ہے تو اس کے خلاف کیس داخل کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق لگتا ہے حکومتی سیاسی جماعتیں شریف ہیں۔ بالکل سیاست شرافت سے ہونی چاہیے۔ مگر ہمیں کسی صورت آئین کے معاملے پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت جو نفرت نظر آرہی ہے وہ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے نہیں کسی اور وجہ سے ہے۔ خود سابق آرمی چیف نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کی۔ ایک پوری سیاسی کلاس ہے جن کی سیاست صرف اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت ہیں۔ اب یہ ساری قوتیں عمران خان کیساتھ ہیں، جتنے آمر گزرے ان سب کی اولادیں اب پی ٹی آئی میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا پورا نظام، بیورو کریسی، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کا مستقبل آمریت کیساتھ ہے۔ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اب غیرجانبدار ہے تو پھر ان قوتوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ اگر پاکستان کو آمریت کی طرف دھکیلا گیا تو ان کی ترقی بھی ہوگی اور انکا مستقبل بھی ہوگا۔