ایک نیوز:سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے گذشتہ روز ریمارکس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، جب آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے کل کے ریمارکس پر وضاحت کرتے ہوئےکہا کہ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہوئی ہے، میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججز کی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے، فیصلے کےدوسرے حصےمیں ہم 4 ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستیں مستردکی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے، یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوالیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں۔
وکیل فاروق نائیک نے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنانےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کےتقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ یہ فیصلہ ہوکہ فیصلہ 4/3 تھا یا 3/2 کا، پورے ملک کی قسمت کا دار ومدار اس مدعے پر ہے، قوم ایک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کو عوام کی عزت، وقار اور اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت کی کہ اپنی درخواست تحریری طورپرجمع کرائیں، عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔
پیپلزپارٹی کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا:
فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ کیس سننے سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیےکہ فیصلہ 4/3 کا ہے، پہلے دائرہ اختیار کے معاملے پر فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اس مدعے پر فیصلہ تب کریں گے جب درخواست سامنے ہو، پرسکون رہیں، پرجوش نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم الیکشن کمیشن کو سنیں گے، آپ تمام لوگ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آئے تو جسٹس جمال نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن یہ بتائے کہ انہوں نے شیڈول جاری کیسے کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس جب آرڈرآف دی کورٹ آیا ہی نہیں تو اس نےعمل کیسےکیا؟ سپریم کورٹ کا حکم وہ ہوتا ہے جو آرڈر آف دی کورٹ ہو، وہ جاری نہیں ہوا، کیا آپ نے عدالت کا مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ممکن ہے فیصلہ سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟ یکم مارچ کے فیصلے میں کہیں درج نہیں کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، ججز کی اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونےکا دعویٰ نہیں کرسکتی۔