ایک نیوز:مہنگائی سےپریشان عوام بڑی تعدادمیں ایرانی سستی اورمعیاری مصنوعات کوخریدرہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں غذائی اشیا کی مہنگائی 42 فیصد پہنچنے کے بعد بڑی تعداد میں صارفین تھوڑی سستی لیکن اعلیٰ معیار کی ایرانی ’اسمگلنگ‘ والی اشیا خریدرہے ہیں۔
دکانداروں نے جڑواں شہروں کی متعدد دکانوں پر ایرانی مصنوعات کیلئے علیحدہ سے ریکس مختص کر رکھے ہیں لیکن ان اشیا کازیادہ سٹاک والی جگہ پشاور موڑ پر ہفتہ وار بازار ہے۔ہفتہ واربازاروں میں اسٹالوں پر ایرانی مصنوعات کا علیحدہ سیکشن ہے۔
مارکیٹ میں بہت سی ایرانی مصنوعات دستیاب ہیں لیکن سب سے زیادہ طلب خوردنی تیل اور مکھن کی ہے۔ تاہم یہ گھریلو صارفین کیلئے بامشکل دستیاب ہیں کیونکہ تجارتی صارفین انہیں براہ راست ہول سیل ڈیلرز سے حاصل کر لیتے ہیں۔
عوام کاکہناہے کہ درآمدی ایرانی اشیا کی پیکیجنگ بہت اعلیٰ ہے جبکہ کچھ کی قیمتیں پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم ہیں۔ ہر دکاندار کی مختلف قیمتیں ہیں لہٰذا بھاؤ تاؤ کرنا ضروری ہے۔
تاجروں کاکہناہے کہ ایرانی مصنوعات درآمد نہیں کی جاتیں بلکہ یہ ایران اور بلوچستان اور افغانستان کے ذریعے اسمگل ہو کر ملک میں لائی جاتی ہیں۔
بلوچستان کے علاوہ ایرانی اشیا پہلے مخصوص علاقوں میں دستیاب تھیں لیکن تاجر اب یہ مصنوعات ملک کے تقریباً تمام حصوں بشمول اسلام آباد میں فروخت کر رہے ہیں۔
ماہرین کاکہناہے کہ سرحدی تجارت خاص طور پر بلوچستان،ایران سرحد پر ’اسمگلنگ کے زمرے میں نہیں آتی‘۔
سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز (سی پی جی ایس) کے صدر ناصر شیرازی کاکہناہے کہ بلوچستان میں آبادی کم اور بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے، ہمارے نظام کیلئے صوبے کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے، حتیٰ کہ گوادر اور دیگر حصوں میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے کیونکہ وہاں پر نیشنل گرڈ کو توسیع دینا بہت مہنگا ہے۔