ایک نیوز :سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف نیا پینڈورا باکس کھول دیا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہنا تھاکہ اگر تحریک انصاف کی حکومت چلتی رہتی تو مدت ختم ہونے تک ملک معاشی طور پر تباہ ہو جاتا۔ہم چیئرمین پی ٹی آئی کو مشورہ دیتے تھے مگر وہ اس وقت کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھے، (ن) لیگ کے اراکین کے ٹیکس کی فائلیں مانگی جاتی تھیں۔شہزاد اکبر ایک صوفے پر بیٹھ جاتے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی بلا کر اور کہتے تھے کہ شہزاد یہ کہہ رہا ہے ، بتاؤ کیا کرنا ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ملک کی خراب معیشت کا بتایا ، مشورے دیے لیکن وہ کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھے۔ملتان کے بڑے زمیندار کو نوٹس بھیجا تو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں 40 اراکین اسمبلی آگئے، نصراللہ دریشک نے کہا کہ تم ابھی بچے ہو، یہ تمہارے بس کا کام نہیں۔ تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے لگے تو اسد قیصر کے ساتھ ایم این ایز آگئے اور کہا وہ ٹیکس نہیں دے سکتے، قبائلی علاقوں میں اسٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالا تو فاٹا کے 20 سینیٹرز چیئرمین تحریک انصاف کے پاس پہنچ گئے کہ شبر زیدی کو روکیں۔
سابق چیئرمین ایف آئی اے کا مزید کہنا تھاکہ ری ٹیلرز کے ساتھ ڈیڈ لاک ہوا تھا ان کا اور آڑھتی کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، ری ٹیلرز ایک بازار مافیا ہے ان کو ہاتھ ڈالتے ہیں تو شٹرز بند کردیتے ہیں، ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹرز پاور سے لڑسکے، اگر آپ شٹرز پاور سے لڑنے پر تیار نہیں تو ٹیکس نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا، ڈی جی سی کے ساتھ میٹنگ میں ٹریڈرز کے نمائندے موجود تھے، ٹریڈرز کا نمائندہ کھڑا ہوا اور کہا کہ میں 100 روپے سیل پر 50 پیسہ ٹیکس دیتا ہوں، ٹریڈرز نے کہا کہ 100 روپے سیل پر 15 روپے ٹیکس مانگا جارہا ہے میں نہیں دونگا جو مرضی کرلیں، ڈی جی سی صاحب نے کہا کہ ابھی ہڑتال نہ کریں بیٹھ کر بات کریں گے۔
شبرزیدی کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے کہا کہ تم جو کرسکتے ہو کرو میں فضل الرحمان کے دھرنے سے خوفزدہ ہوں، سابق وزیراعظم نے مجھے کہا کہ جہانگیر ترین سے جاکر مذاکرات کریں، مذاکرات میں یہی ہوا کہ انھوں نے کہا ایک دو ماہ ڈیفر کریں پھر معاہدہ کیا، وہ بھی بڑا لوز معاہدہ تھا وہ نہیں مان رہے تھے، لاہور اور پنڈی کے دو چار بڑے ٹریڈرز تھے انھوں نے کہا کہ کسی بھی حال میں ٹیکس نہیں دیں گے، کراچی میں ٹریڈرز نے میرے ساتھ فزیکل بدتمیزی کی تھی، کراچی کے ٹریڈرز کہہ رہے تھے کہ کوئی بازار والا آپ کو ٹیکس نہیں دے گا، ٹریڈرز جب ٹیکس میں جائیں گے تو پورا کاروبار عوام کے ساتھ کھل جائے گا، ٹریڈرز کسی بھی قسم کی ڈاکیومینٹیشن میں جانے کو تیار ہی نہیں، کراچی میں کپڑے کی مارکیٹ جہاں سلک کا کپڑا ملتا ہے وہ سارا اسمگل شدہ ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر کاکہنا تھاکہ سندھ میں زرعی انکم ٹیکس کا ڈپارٹمنٹ ہی نہیں ہے، پنجاب میں زرعی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کتنے آدمی کام کرتے ہیں کون انچارج ہے؟ کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی، ملتان میں ایک بڑے زمین دار کو نوٹس دے دیا تھا، شاہ محمود قریشی کی قیادت میں 46ایم این ایز میرے دفتر آئے، ان میں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ایم این ایز بھی تھے، ان میں ایک بزرگ ایم این اے سردار نصر اللہ دریشک بھی تھے، انھوں نے کہا کہ ہم ساؤتھ پنجاب کے ایم این ایز ہیں ہمارے بغیر حکومت نہیں چل سکتی، سردار نصراللہ دریشک نے کہا کہ اس چکر میں نہ پڑیں یہ آپ کے بس کی بات نہیں، انھوں نے کہا کہ ساؤتھ پنجاب کے ایم این ایز سے لڑ کر کوئی حکومت رہ نہیں سکتی۔
شبر زیدی کا کہنا تھاکہ آٹے کی قلت اس وقت ہوتی ہے جب آٹا افغانستان جاتا ہے اور آتا ہے، پاکستان میں سونے کی سالانہ کھپت ساڑھے چار ٹن ہے لیکن پاکستان میں ایک تولہ سونا بھی امپورٹ نہیں ہوتا پھر یہ سونا کہاں سے آتا ہے؟ جیولرز نے کہا کہ ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن سونے کی انوائس نہیں دکھا سکے تو پھر کیسے ٹیکس دیں گے کیوں کہ ہم جو سونا مارکیٹ سے خریدتے ہیں وہ اسمگل شدہ ہے، جیولرز نے کہا کہ وہ اسمگل شدہ سونا لے رہے ہیں تو بغیر انوائس ٹیکس کیسے دیں گے؟ جیولرز کہتے ہیں کہ جب ان کے پاس رسید ہی نہیں تو کیسے ٹیکس دیں، بھارت میں من موہن سنگھ کے دور میں سونے کی درآمد کی اجازت دی گئی جس سے اسمگلنگ ختم ہوئی۔
شبرزیدی کاکہنا تھاکہ جب انہوں نے تمباکو انڈسٹری پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ کے پی کے ایم این ایز ملنا چاہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ تمباکو فیکٹری پر ٹیکس بند کریں یہ نہیں ہوسکتا، ہمارے تمام ایم این ایز تمباکو کے کاشتکار ہیں یہ نہیں ہوسکتا، میں نے کہا کہ 500 کو زیرو کردوں گا تمباکو فیکٹری تو رجسٹرڈ کرنے دیں، جواب آیا کہ یہ نہیں ہوسکتا آپ ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں 30 فیصد سگریٹس جن کی ڈیوٹی کا ریٹ 74 فیصد ہے وہ جعلی ہیں۔
شبر زیدی نے کہا کہ بعض دفعہ تو میں وزیراعظم کی بے چارگی دیکھا کرتا تھا، میں تو آج کنونس ہوچکا ہوں کہ مافیاز ہیں جو حکومتوں کو چلاتے ہیں، پنجاب سے اسکریپ جاتا ہے جمرود میں فیکٹریاں ہیں وہاں سریا بنتا ہے، وہ نہ بجلی کا بل اور نہ ٹیکس دیتے ہیں، ان پر ہاتھ ڈالا تو 20 سینٹرز وزیراعظم کے پاس آکر بیٹھ گئے کہ انہیں روکیں، یہ بھی ایک چیز تھی جس پر میرا وزیراعظم سے اختلاف ہوا، حماد اظہر نے اس معاملے میں مجھے سپورٹ کیا کیونکہ ان کا بھی اسٹیل کا کاروبار ہے اور وہ چاہتے تھے کہ فاٹا کی فیکٹریوں ٹیکس لگایا جائے۔
شبر زیدی نے بتایا کہ اس معاملے پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سینیٹرز نے بتایا کہ دباؤ ڈالا گیا تو وہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو فنانس کردیں گے، میں نے اس وقت پہلی دفعہ سابق وزیراعظم کو پریشان دیکھا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ روز فرمائش کی جاتی تھی کبھی اس کی کبھی اس کی فائل لاتے کہ یہ کیس کھول دیں، میں نے اپنی پوری مدت میں کسی ایک شخص کا کیس نہیں کھولا ، شہزاد اکبر مجھے کوئی کیس کھولنے براہ راست نہیں بولتے تھے، شہزاد اکبر آکر بیٹھ جاتے تھے وزیراعظم کہتے تھے کہ شہزاد یہ کہہ رہا ہے کہ کیا کرنا ہے، میں جواب دیتا تھا کہ سر شہزاد کو کہیں میرے ساتھ آجائے، میں کہتا تھا کہ سر یہ کیس نہیں بنتا رہنے دیں اس کو چھوڑیں، وزیراعظم نے کبھی نہیں کہا کہ کیس کھولو، کہتے تھے شہزاد فائلز لے کر آیا، میں کہتا تھا ٹھیک ہے فائل مجھے دے دیں میں دیکھ لیتا ہوں، ٹیکس کا کیس کھولنا بڑا ٹیکنیکل مسئلہ ہوتا ہے، نان پروفیشنل آدمی ہوتا تو وہ کیس کھول بھی دیتا۔