ایک نیوز: پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شمالی علاقہ جات میں درجہ حرارت بڑھننے لگا،برف پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق ماہرین موسمیات نے کنکریکٹ کے گھر، جنگلات کی بے دریغ کٹائی درجہ حرارت میں اضافے کی وجوہات قراردیدیا۔ قدرتی آفات کی زد میں رہنے والے چترال کے علاقے ریشون میں ایک طرف گلیشئر کی تباہ کاریوں کا خطرہ تو دوسری طرف گلوف سے بننے والی جھیلوں کا ٹوٹنا بھی وادی میں بسنے والے لوگوں کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔
32 سالہ فریدہ پری وادی چترال کے علاقہ ریشون کی رہائشی ہیں جو 2007 میں گلیشئر پھٹنے کے المناک حادثے میں وہ اپنا گھر کھو چکی ہیں گو کہ وہ اور انکے خاندان کے دیگر افراد بچ گئے لیکن اچانک ہونے والے حادثے کاخوف انکے سر پر پھر سے منڈلانے لگا ہے۔
فریدہ بی بی سمیت گاؤں کی درجنوں خاندان ماضی قریب میں اپنے دیہاتی علاقہ اور گرد و نواح میں گلوف سے کچے مکانوں کا دریا برد ہوتے، فصلوں کا سیلابی ریلوں میں بہتے اور زمینوں کو دریا برد ہوتے دیکھ چکی ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہائی رسک زون میں شامل اپر چترال اور لوئر چترال کے مکینوں کو دسمبر، جنوری میں زیادہ برف سے برفانی تودے گرنے کا خطرہ جبکہ جون، جولائی میں گلوف سے بن جانے والی جھیلوں کا ٹوٹنا اور سیلابی ریلوں کی تباہ کاریاں معمول ہی بن چکا ہے۔
فریدہ پری کا کہنا تھاکہ بچپن سے ہم نے سنا اور دیکھا ہے کہ چترال گلیشئرز، خوبصورت پہاڑوں، تازہ پانی کے چشموں اور دریاؤں کا مسکن ہے لیکن عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی نے اس خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، سردیوں میں بالائی علاقوں میں برف کے پہاڑ ٹوٹنے کا ڈر اور گرمیوں میں سیلاب کا خوف، شاید اب نہ ٹلنے والے خطرات کا حصہ بن گئے ہیں۔ سر پر منڈلانے والے خطرات کے باعث نہ صرف انکے جانوں کو خطرہ ہے بلکہ وہ کسی بھی وقت گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
پی ڈی ایم اے خیبرپختونخوا کے ترجمان محمد تیمور کے مطابق اپر، لوئر چترال سمیت سوات کے بالائی علاقوں میں درجہ حرارت بڑھ چکا ہے ، گرمی کی لہر بڑھنے سے اپر چترال ، لوئر چترال ، اور دیر کے بالائی علاقوں میں گلششئیر پگھلنے سے فلیش فلڈ کا خدشہ بڑھ گیا، سیاح اور مقامی لوگ غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ تیمور خان کے مطابق ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ریسکیو ، ڈسٹرک ایڈمنسٹریشن الرٹ کر دئیے گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے بنیادی طور پر تین کام کرنے چاہہے پہلے ہائی رسک علاقوں کی میپنگ ہے تاکہ گلوف سے ممکنہ سیلاب کے خطرات سے دوچار علاقوں کی نشاندہی ہو سکے۔ دوسرا چترال میں بے دریغ کنکریٹ کے گھر جو کہ براہ راست تپش چھوڑنے کا باعث بن رہے ہیں کچے مکان چھوڑ کر اب لوہے کاسریا استعمال ہو رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نور کمال کا کہنا ہے کہ دنیا میں درجہ حرارت میں اضافے کیساتھ خیبر پختونخوا کی برفانی وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل چترال میں بھی درجہ حرارت بڑھنے لگا ہے، چترال شہر میں برفباری دو سے تین فٹ سے کم ہو کر صرف ایک انچ تک رہ گئی ہے، جبکہ جون جولائی میں درجہ حرارت 40 سے 42 سینٹی گریڈ تک جانے لگا ہے، درجہ حرارت بڑھنے سے اپر چترال میں گلاف (گلیشیئرز پگھلنے سے بننے والی جھیلوں، سیلابی ریلوں سے) ریشن گاؤں، مدک لشٹ گاؤں اور آرکاری ویلی میں پندرہ سے 20 ہزار کی آبادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔