پی این این: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نےعمران کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ لاڈلے کی سزا معطل ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس کا "گُڈ ٹو سی یو" اور "وشنگ یو گڈ لک" کا پیغام اسلاآباد ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔فیصلہ آنے سے پہلے ہی سب کو پتہ ہو کہ فیصلہ کیا ہوگا تو یہ نظام عدل کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔اعلی عدلیہ سے واضح پیغام مل جائے تو ماتحت عدالت یہ نہ کرے تو اور کیا کرے؟۔نوازشریف کی سزا یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ جج لگا تھا، لاڈلے کو بچانے کے لئے خود چیف جسٹس مانیٹرنگ جج بن گئے ۔
شہباز شریف کا کہنا ہےکہنظامِ عدل کا یہ کردار تاریخ کے سیاہ باب میں لکھا جائے گا۔ایک طرف جھکے ترازو اور انصاف کو مجروح کرتا نظام عدل قابلِ قبول نہیں ہے۔خانہ کعبہ کے عکس والی گھڑی بیچ کھانے والے کے سامنے قانون بے بس ہے ۔چور اور ریاستی دہشت گرد کی سہولت کاری ہوگی توملک میں عام آدمی کو انصاف کہاں سے ملے گا ۔
قانون کے مطابق نہیں فیملی کی مرضی سے فیصلے ہورہے ہیں، عطاءتارڑ
ڈپٹی سیکرٹری جنرل پاکستان مسلم لیگ نون عطاء تارڑ نے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا جو سپریم کورٹ پہلے دے چکی تھی۔ یہ بھی تاریخ بن رہی ہے ایسا فیصلہ آنا جو سپریم کورٹ پہلے سنا چکی ہو۔ جب آڈیو سامنے آئی تو سب کھیل کھل کر سامنے آ گیا کہ کون کدھر کھڑا ہے یہ فیملی کی مرضی سے فیصلے ہو رہے ہیں نہ کہ قانون کے مطابق۔
ایک جج صاحب مظاہر علی نقوی جو خود تو اپنے کیس میں پیش نہیں ہوئے مگر ایک پارٹی کے وکیل بن کر کیس سنتے رہے۔ وہ صاحب جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کیس ہے وہ بھی ایک پارٹی کے وکیل بنے ہوئے تھے۔ اگر جج خود وکیل صفائی بن جائیں تو پھر وکیل صفائی کی کیا ضرورت۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان بطور گواہ اپنے بندے رؤف حسن کو پیش کرنا چاہتے تھے۔ چوری کا بہانہ یہ پیش کی جا رہا ہے کہ میرا کیس 180 دن پرانا ہے تو نہ سنا جائے۔ یہ سب باتیں سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کا بنچ اگر اپنے ماتحت عدالت کو فیصلہ کرنے کا کہے گا تو پھر کیسا فیصلہ آئے گا۔
عطاء تارڑ نے کہا کہ سزا معطلی تو ہو جاتی ہے کسی بھی چور ڈاکو کی مگر سزا ختم نہیں ہوتی۔ سزا ختم ہونے کے لیے کیس کو میرٹ پر دیکھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے جیسے یہ کیس سنا یہ ایسے ہے جیسے سیمی فائنل سے پہلے فائنل کا فیصلہ آ جائے۔ کسی اور کو یہ سہولت دستیاب نہیں ہے جو ان کو میسر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم خود تسلیم کرتا ہے میں نے تحفے لیے اور بیچے، ان کے وکیل نے الیکشن کمیشن کے سامنے اعتراف کیا۔ کوئی بھی ملک کا سربراہ یہ تحائف آگے بیچ نہیں سکتا۔ انہوں نے نہ صرف بیچے ہیں بلکہ آگے کاروبار کیے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سہولت فراہم کی ان کو۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں چیف جسٹس کو آڈیو لیک ہونے کے بعد ان کا کوئی کیس نہیں سننا چاہئے تھا۔ جب آڈیو کا کمیشن بنا تو آپ بیچ میں آ گئے اگر آپ نے کیس سننا تھا تو یہ اپنی ساس کے حق میں گھر میں ہی فیصلہ دے دیتے۔ آپ کو جسٹس قاضی فائز عیسی کو یہ کیس سننے دینا چاہئے تھا۔