ایک نیوز: نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کردے؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گڈ ٹو سی یو، مجھے امید ہے ایسا کہنے پر مجھے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ مخدوم علی خان کا مدعا تو ہم نے سمجھ لیا وہ تو اس عدالتی کارروائی پر تنقید کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ قانون میں سقم ہیں اور انہوں نے وقت مانگا تھا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں حکومت نے اپیل کا دائرہ کار بڑھایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جون کے بعد مخدوم علی خان سے ملے ہیں، ہم نے درخواست گزارسمیت دیگروکلا کی تحریری معروضات دیکھی ہیں، اس کیس میں بہت وقت لگ چکا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے بعد مختلف درخواستیں دائرہوئی ہیں۔
چیف جسٹس نےپریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے متعلق گزشتہ عدالتی حکمنامے پڑھنا شروع کردیئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومتی وکیل مخدوم خان کا مدعا ہم سمجھ چکےہیں، مخدوم صاحب توآج کل سب کے بارے میں ہی بڑے تنقیدی ہوگئے ہیں، اٹارنی جنرل نےتسلیم کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں خامیاں ہیں، اٹارنی جنرل نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق یکم جون کومطلع کیا، اٹارنی جنرل نےجون میں کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کواسمبلی دیکھے گی، اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا، نہیں معلوم کہ موجودہ حکومت کااس قانون سےمتعلق موقف کیاہے، کیا معطل شدہ قانون کواتنی اہمیت دی جائے کہ اس کی وجہ سےتمام کیسزالتوا کا شکارہوں؟ اٹارنی جنرل نے ایکٹ پردوبارہ جائزے کیلئے دو مرتبہ وقت کیوں مانگا؟
مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ اٹارنی جنرل اپنی پوزیشن کے دفاع کیلئے یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرا حل یہ ہے کہ عدالت اپنا کام جاری رکھے اور پارلیمنٹ طے کرے، احترام کیساتھ کہنا چاہتا ہوں یہ محض تاثر ہے کہ قانون موجود ہے، اگر قانون موجود ہے تو پھر ترمیم کی بات کیوں کی گئی۔
مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ عدالت کسی بھی قانون کالعدم قرار دینے سے قبل انتہائی احتیاط کرے۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی قانون کو کالعدم قرار نہیں دے رہے۔ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ جب تک کسی قانون میں نظرثانی نہ ہو وہ قانون برقرار رہتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی صورت میں پہلی بار ایسا قانون بنایا گیا جو سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات میں مداخلت کر رہا تھا، پہلی دفعہ سپریم کورٹ ازخود فیصلوں کے دائرہ کار کو بڑھا دیا گیا، کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر دے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو احساس ہوا کہ اس قانون میں سقم ہے اس لیے اسے ٹھیک کرنے کے لیے وقت مانگا تھا۔ جسٹس منصور شاہ نے وکلاء سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر حکم امتناع کی موجودگی میں کیا اس بنیچ کو یہ مقدمہ سننا چاہیے یا فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے؟
وکیل مخدوم علی خان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو آف ججمنٹ کے معاملے پر حکومت نے خود معاملہ ملتوی کرنے کی درخواست کی، ملتوی کرنے کی درخواست کا مقصد قانون میں ترمیم کرنا تھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ پر حملہ ہے، یہ آئین کی بنیادوں کے خلاف ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس اس وقت آن فیلڈ نہیں بلکہ معطل ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو قانونی نکات اُٹھائے گئے انھیں ہم سمجھ رہے ہیں۔ موجودہ کیس میں حکومت پاکستان نے خود اس کیس کو التواء میں ڈالنے کی استدعا کی۔ ہم یہاں آئین اور قانون کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔ کیس سننے کے لیے ہم میں سے ایک ممبر کو بیرون مُلک سے واپس آنا پڑا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے اس کیس کو چلایا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2023 والی نیب ترامیم تو محظ ایک ریفائن کرنے کی کوشش تھی، اصل نیب ترامیم تو 2022 میں آئی تھیں۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ 2023 والی ترامیم سے متعلق بھول جائیں۔ چھٹیان چل رہی ہیں ہم صرف اس کیس کے لیے واپس آئے ہیں، آپ اپنے دلائل کو 2022 والی ترمیم تک محدود رکھیں، لگتا ہے یہ کیس ای او بی آئی بنتا جارہا ہے جو ختم نہیں ہونا، ای او بی آئی کیس میں چھ چیف جسٹس گزارے تھے۔
جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ نیٹ فلیکس سیزن تھری بن گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس مقدمے کا 2022 کی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ کر دیتے ہیں۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2023ء میں چھوٹی ترامیم ہوئی جیسا کہ مقدمہ منتقلی کے حوالے سے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں صرف بتائیں کہ 2022ء والی ترامیم میں کیا کیا شامل ہوا تاکہ کیس کو ختم کریں۔ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ 2023 والی ترامیم سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی ترمیمی درخواست دائر نہیں کی۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں ان کی درستگی کروا دوں گا عدالتی حکمنامے میں موجود ہے کہ میں نے 2023 والی ترامیم کا معاملہ اُٹھایا۔ عدالت نے مجھے متفرق درخواست دائر کر کے اور کاپی مخالف فریق کو دینے کا کہا اور یہ میں کر چُکا ہوں۔
مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ ہمیں یہ پتہ ہے 1999 میں نیب قانون کے تحت لوگوں سے کیا برتاؤ ہوا؟ اگر ترامیم یہ کہتی ہے کہ لوگوں کو 90 دن تک جیل میں بغیر ریفرنس کے نہیں رکھا جا سکتا تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ ایسے کون سے آئینی حقوق متاثر ہو گئے کہ ان ترامیم پر جوڈیشل ریویو کی ضرورت پڑی۔ عدالتیں صرف تب مداخلت کرتی ہیں جب لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوں۔ قانون سازی کے معاملے میں عوام کے منتخب نمائندوں پر ہی اعتبار کرنا چاہیے۔
مخدوم علی کی جانب سے عدالت کے سامنے خلافت عثمانیہ اسلامی قوانین اور تاریخی کتب کے حوالے دیے گئے۔ مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ ہاشم کمالی کی ایک کتاب کا حوالہ بھی پیش کروں گا۔ جس پر جسٹس منصور شاہ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ آپ نے یہ کتاب سم شاپنگ سے خریدی یا کہاں سے منگوائی تھی؟ مخدوم علی نے کہا کہ برسوں پہلے میں نے یہ کتاب ایمازون سے منگوائی تھی۔ جس پر منصور علی شاہ نے کہا کہ میں ایمازون پر اس کتاب کو ڈھونڈ لوں گا۔
مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ پہلے قانون بھی سلطان بناتا تھا اور قاضی کی تعیناتی بھی سلطان کرتا تھا۔ اب ویسا سلطنت والا تصور موجود نہیں قانون ساز پر اعتبار کرنا چاہئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ فل کورٹ بنانے کی تجویز دیدی۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔