ایک نیوز نیوز: ایسے افراد جو زیادہ خبریں دیکھتے ہیں وہ ذہنی اور جسمانی صحت کے سنجیدہ مسائل کا شکارہوسکتے ہیں۔
عالمی وباء کورونا وائرس، منکی پاکس، اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات، جنگلات میں آتشزدگی سے روس کے یوکرین پر حملے تک خبروں میں تباہی و بربادی کی کمی نہیں اور لوگ ان سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق ایسی صورتِ حال میں عادتاَ خبریں دیکھنے والے افراد میں سے 16 فیصد سے زائد لوگ جسمانی اور ذہنی صحت کے سنجیدہ مسائل میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی کالج آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن میں ایڈورٹائزنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسراورتحقیق کے مصنف برائن مک لافلِن نے کہا کہ ایسے افراد جو مستقل خبروں کے متعلق سوچتے ہیں، یہ خبریں ان کی صحت پر ان کی سوچ سے زیادہ منفی اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر خبریں دیکھنے کا عمل لت بن جائے تو اس کے کسی فرد کی جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں پریشان کن خبروں کی وجہ سے صورت حال بد سے بدترہوگئی ہے۔
پروفیسربرائن مک لافلِن نے کہا کہ کووڈ یقیناً ایک بہت بڑی وجہ ہے اوراس کے ساتھ ساتھ سیاسی تقسیم اورتنازعات بھی۔ انہوں نے کہا جتنی چیزوں کے بارے میں زیادہ تشویش ہوگی، اتنے ہی لوگ زیادہ خبروں کی طرف مائل ہوں گے۔
برائن مک لافلِن نے سروے کے دوران جب 11 سو افراد سے پوچھا کہ کیا وہ خبروں میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ انہیں دوسری چیزوں کا خیال نہیں رہتا؟ اور یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا خبریں سننے پر انہیں تھکاوٹ ہوتی ہے، تشویش ہوتی ہے، دکھ ہوتا ہے اور کیا وہ اپنی توجہ کھو دیتے ہیں؟
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو زیادہ خبریں پڑھتے یا سنتے ہیں، ان افراد سے جو زیادہ خبریں نہیں دیکھتے، کو جسمانی یا ذہنی کوفت کا سامنا تھا۔
برائن مک لافلِن نے کہا کہ اپنے ارد گرد کے بارے میں باخبر رہنا فائدہ مند ہے لیکن اگر یہ خبریں آپ کے لیے ذہنی دباؤ کی وجہ بننے لگیں تو انسان کو انہیں چھوڑ کر اپنے جذبات پر توجہ دینی چاہیے۔
کلینیکل سائیکالوجسٹ آمانڈا سپرے نے کہا کہ انہوں نے بھی زیادہ خبریں دیکھنے والے لوگوں میں ذہنی اور جسمانی بیماریوں کی تشخیص کی ہے۔ انہوں نے کہا بری خبریں یقیناً پریشان کرتی ہیں اور بعد میں جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔