ایک نیوز :سربراہ جے یو آئی مولانافضل الرحمان نے تحریک انصاف کے جلسوں کی حمایت کردی ۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ جلسے کرنا تحریک انصاف کا آئینی اور جمہوری حق ہے ۔اسد قیصر کے جلسے کرنے کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔
فضل الرحمان کاکہنا تھاکہ حلف برداری کے بعد پہلی مرتبہ ایوان میں حاضر ہوا ہوں ۔سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے۔ملک کے قیام میں بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں۔کیا وجہ ہے کہ مسلسل ایوان پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔یہ عوام کا نمائندہ ایوان ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا ترتیب کردہ ایوان ہے؟ ایک زمانے میں ملک کے صدر نے پانچ وزیراعظم تبدیل کئے۔1970 کے انتخابات کو مثالی پیش کیا جاتا ہے لیکن کیا نتائج پر ہماری نظر ہے؟
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کا پاکستان کہاں گیا؟ 1970 کے انتخاب کے بعد ملک دو لخت ہو گیا۔کب تک ہم بھیک مانگیں گے؟ ہمیں 2018 کے انتخاب پر بھی اعتراض تھا۔اس وقت کا مینڈیٹ بھی تقریباً 2018 والا ہے۔ہماری معلومات یہ ہیں اس بار اسمبلیاں بیچی گئیں۔ہمارا ضمیر یہاں بیٹھ کر کیسے مطمئن ہے؟ حکومتی جماعتوں کے سینئیر لوگ اپنے ہی مینڈیٹ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔جمہوریت کہاں کھڑی ہے؟ ہم نے ہر مرحلے پر کمپرومائز کیا۔
فضل الرحمان کاکہنا تھا کہ مدارس کے تحفظ کے حوالے سے بل کو پیش نہیں کرنے دیا گیا۔ہندوستان اور پاکستان ایک ہی وقت آذاد ہوئے، آج وہ سپر طاقت بننے جا رہے ہیں۔ہم دیوالیہ پن سے بچنے کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔گھومتی پھرتی بات سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں پر آئے گی۔فیصلے دیوار کے پیچھے کی قوتیں کریں اور منہ ہمارا کالا ہو؟ہم جس ہندو کو سارے برے القاب دیتے ہیں اس کی کارکردگی اور اپنی کامیابی کا موازنہ کریں۔اسلام کے نام پر بنا ملک دنیا میں سیکولر ریاست کا روپ دھار چکا ہے۔1973 سے آج تک تمام قوانین کا جائزہ لیا جائے، خلاف اسلام قوانین کا جائزہ لیا گیا۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اس ایوان نے ایک بھی قانون سازی نہیں کی۔اس ایوان میں بھرے گئے لوگوں کو اسلامی نظریے سے کوئی دلچسپی نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے سپیکر سے سوال کیا کہ ایاز صادق صاحب کیا آپ لاہور کے نتائج سے مطمئن ہیں؟ سپیکر نے جواب دیا کہ میں نتائج سے مطمئن ہوں۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مسکرا کرجواب دیا کہ اللہ آپ کو مطمئن رکھے۔
جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان کا مزیدکہنا تھا کہ پاکستان اس وقت ایک غیر محفوظ ریاست ہے۔جنرل مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنائی گئی۔امریکہ کی پالیسی مسلط کی گئی، آج بھی اس میں فرق نہیں آ رہا۔
مولانا فضل الرحمان کی تقریر کے دوران فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین بینرز اٹھا کر سامنے آ گئے۔
جے یوآئی کے سربراہ کاکہنا تھا کہ فاٹا کے لوگوں کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر گزر رہی ہے۔مغرب کے بعد تھانے بند ہو جاتے ہیں، پولیس چوکیاں بند ہو جاتی ہیں۔باجوہ صاحب نے باڑ لگانے کی بات کی وہ باڑ کہاں ہے ؟ 20 ہزار نوجوان یہاں سے وہاں کیسے گئے اور طاقتور بن کر واپس آئے؟ کوئی ہمیں سمجھائے کہ کیا سیاست ہو رہی ہے؟ جہاں عسکریت پیدا ہو گی وہاں امریکہ کو فوج لے جانے کا جواز ملے گا۔دہشت گردی اور عسکریت پسندی امریکہ کی ضرورت ہے۔آج تمام اسلامی دنیامیں امن اور انسانی حقوق کے نام پر امریکی فوجیں موجود ہیں۔
مولانافضل الرحمان کاکہنا تھا کہ مسلئہ قیادت کا ہے، نواز شریف ، شہباز شریف اور بلاول سے کہتا ہوں عوام میں جاتے ہیں۔شاید میری بات حکومتی بینچوں کو احمقوں والی لگ رہی ہو گی۔شاید ہم سمجھنے کے لئے نہیں نوکری کرنے کے لئے تیار ہیں۔ہم جدوجہد کریں گے، یہ نظام ہمیں قبول نہیں ۔2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ ہو گا، 9 مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہو گا۔