ایک نیوز: سندھ ہائیکورٹ نےلاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پیش کی گئی پولیس رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں بچے اور خواتین سمیت 12 سے زائد لاپتہ افرادکی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی جس پرعدالت نےپولیس رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ روایتی کارروائیوں سے لاپتا افراد کا سراغ نہیں لگایا جاسکتاہے۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع اور دیگر سے بھی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ بتایا جائے کراچی سے لاپتا شہری ملک کے کسی دیگر صوبوں میں قائم حراستی مرکز میں تو نہیں رکھا گیا؟ ۔اگر لاپتہ افراد کسی حراستی مرکز میں قید ہیں تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔لاپتا افراد کے اہلخانہ روایتی کارروائیوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ عدالت نے 22 مئی کو پولیس، محکمہ داخلہ اور وفاقی حکومت سے پیش رپورٹ طلب کرلی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سید طاہر علی 2015 سے قذافی ٹاون سے لاپتا ہے۔فہیم اور ثاقب بھٹی بھی 2015 سے کلفٹن کے علاقے سے حراست میں لیے جانے کے بعد سے لاپتا ہیں۔ عمر صدیقی اور عمر فاروق شاہراہ فیصل اور مومن آباد سے لاپتہ ہیں۔ کم سن لڑکی زینب 2018 سے ابراہیم حیدری سے گمشدہ ہے۔بابر، نصیرم بی بی، بچہ ایوب جمشید کوارٹر اور ڈیفنس کے علاقوں سے لاپتہ ہیں۔مظفر علی، عثمان اور عظیم سرجانی ٹاؤن، لانڈھی اور سعید آباد کے علاقوں سے غائب ہیں۔ایاز احمد اور غلام علی دائیو ڈیفنس کے علاقے سے حالیہ دنوں میں لاپتا ہوگئے ہیں۔