ایک نیوز: 1990 میں سرکاری ملکیت اور استعمال میں لائی گئی اراضی کا معاوضہ اب تک ادا نہ کئے جانے پر سپریم کورٹ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور سرکاری افسروں سے شدید ناراضی کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں اور آپکو عوام کی جیبوں سے تنخواہیں ملتی ہیں، ہماری کارکردگی صفر ہے،ڈاکوؤں اور ریاست میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔سپریم کورٹ نے سرکاری افسروں کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں درخواست گزار بشیراں بی بی کو اس کی ملکیتی اراضی کا 1990 سے اب تک معاوضہ نہ ملنے کے کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ایک سال قبل حکم جاری کیا تھا،اب تک عمل نہیں ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور سرکاری افسروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں اور آپکو عوام کی جیبوں سے تنخواہیں ملتی ہیں،ہماری کارکردگی صفر ہے،ڈاکوؤں اور ریاست میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سال بعد بتایا جارہا ہے کہ معاوضے کی ادائیگی کا عمل جاری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ عدالتوں کے ساتھ شفاف رویہ ہونا چاہیے،نظام انصاف سے مذاق کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 17 نومبر 2022 کو عدالت نے حکم جاری کیا۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایک متفرق درخواست دائر کردی گئی ہے،ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی طرف سے جواب جمع کروا دیا گیا،حکومت پنجاب نے بشیراں بی بی کی زمین کی ملکیت کو تسلیم کیا،26 مارچ 1990 سے معاوضے کی ادائیگی کا کہا گیا،بشیراں بی بی کی زمین پر ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر سے متعلق ملکیت تسلیم کی،سوال یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر پر بشیراں بی بی کو کتنا معاوضہ دیا جائے گا۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ جب حکومت کسی فرد کی ملکیت تسلیم کرے تو سمجھ سے بالاتر ہے معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا، لاہور سے کچھ افسران کو سپریم کورٹ بھیجا گیا کہ ہمیں ممبر صاحب نے بھیجا ہے،ہم نے سوال کیا کیوں آئے ہیں، جواب نہیں دیا گیا، سرکاری ملازمین کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے،ممبر کے نام کے ساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنا مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے،دفاتر میں سرکاری ملازمین کیلئے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے، آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سرکاری افسروں کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا اور حکم دیا کہ آئندہ سماعت تک بشیراں بی بی کو معاوضہ دیا جائے اگر معاوضہ نہ دیا گیا تو ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ثناء اللہ زاہد نے کہا کہ وکلاء کو انکے طریقہ کار کے مطابق سنا جائے اگر آپ کہتے ہیں تو میں استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہوں۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کھلی عدالت میں سماعت ہورہی ہے،ایک سال بعد آکر بتایا کہ ابھی تک معاوضے کی ادائیگی سے متعلق کچھ نہیں کیا گیا،آپ نے عدالت کو شرمندہ کردیا۔
عدالت نے 2 ماہ کے اندر بشیراں بی بی کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔