عرب میڈیا کے مطابق بشارالاسد کی کامیابی پر عوام نے جشن منایا۔ان کے مد مقابل امیدوار اور حکومت کے باغی اتحاد نیشنل فرنٹ کے سابق سیکرٹری جنرل محمود احمد ماری صرف3.1 فیصد ووٹ حاصل کر سکے جبکہ سوشلسٹ نینسٹ پارٹی کے عبداللہ سلم عبداللہ 1.5 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ ووٹنگ کی شرح 78 فیصد رہی، امریکی حمایت یافتہ کردوں کے علاقے ادلب میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا جبکہ بشارالاسد کے مخالفین اور مغربی ممالک نے انتخابات میں دھوکہ دہی کاالزام عائد کیا ہے،کیونکہ یہ انتخابات سرکاری کنٹرول والے علاقوں اور کچھ ملکوں میں شام کے سفارتخانوں میں کرائے گئے تھے۔
واضح رہے شام میں دس سال سے جاری ٹکراؤ اور لڑائی سے کافی تباہی ہوئی ہے اور کم از کم 3 لاکھ 88 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔ وہاں کی آدھی آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اِن میں تقریباً 60 لاکھ پناہ گزینوں نے دیگر ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
شام کے صدارتی کے انتخابات میں بشارالاسد کی چوتھی بار کامیابی کے بعد لوگوں نے جشن منایا، اسد کی فتح کا جشن منانے والے محمد الہماسی نے کہا کہ ‘ہم اس ملک کی مدد کے لئے گولہ بارود کے خانے کھولتے تھے لیکن اب ہم نے صدر بشار حفیظ اسد کی کامیابی میں مدد کے لئے بیلٹ باکس کھولے ہیں۔