ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جاسکتے ہیں: چیف جسٹس

Mar 28, 2023 | 11:50 AM

ایک نیوز: پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل پر سپریم کورٹ میں دوسرے روز سماعت میں گرما گرم بحث ہوئی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کوئی قانون الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے کرسکتا ہے؟ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جاسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ   اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا جائے تو انتخابات کی تاریخ کا کیا ہوگا؟ 

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔نئے اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو خوش آمدید کہتے ہیں، ہمارے اچھے دوست فاروق ایچ نائیک بھی یہاں ہیں، ان کی معاونت بھی اس اہم مسئلے پر درکار ہو گی، مدعا یہ ہے کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے، کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے، سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، رول آف لاء اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے، گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں، آپس میں برداشت، تحمل، امن و امان کی صورتِ حال ہونی چاہیے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم بھی اس کیس میں اسٹیک ہولڈر ہیں۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ کی اہمیت پر کوئی انکاری نہیں، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمیں قانونی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے، ہم نے سماجی اور سیاسی ڈسپلن کی بحالی بھی کرنی ہے، سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لے کر جاتے ہیں، عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کیا جا سکتا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین زندہ دستاویز ہے، اس کی تشریح زمینی حالات پر ہی مبنی ہو سکتی ہے، تعین کرنا ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں جمہوریت اور ملک کے لیے کیا بہتر ہے، سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لے جاتے؟

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ یکم مارچ کے حکم میں 2 ججز نے فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ ایک الگ کیس ہے، یکم مارچ کے فیصلے پر میرا جواب ہے کہ قانون صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ تاریخ دیں، اگر آپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرِ مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، 2 معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے، ان 2 ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں، ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عمل درآمد کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بینچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتا دیں کہ کیا آئین 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا تقاضہ کرتا ہے یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہو گی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں، آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے اُن لوگوں کا سوچیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تحریکِ انصاف اگر پہل کرے تو ہی حکومت کو کہیں گے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات عوام کے بنیادی حق کا معاملہ ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن 90 دن میں الیکشن شیڈول دینے کا پابند ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک بار تاریخ کا اعلان کر دے تو واپس نہیں لے سکتا۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ بد قسمتی سے کسی کو کوئی شک نہیں کہ 90 دن میں انتخابات اب نہیں ہو سکتے، سوال یہ ہے کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا تھا؟ آئین کی تو پاکستان میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ بڑھانے کی اتھارٹی کس کی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے یا نہیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار پر پارلیمنٹ کو نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کر سکتی ہے، آئین انتخابات کے بنیادی حق میں کسی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، ماضی قریب میں الیکشن میں تاخیر کے لیے کوششیں کی گئیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ وہ تاریخ نہیں دے سکتے، گورنر کہتے ہیں کہ تاریخ دینا میرا اختیار ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد ہو چکا، اس بنا پر الیکشن شیڈول دیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدرِ مملکت کی تاریخ کو بدل دے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی 2 شقوں کا سہارا لیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا ہے کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کر سکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کر سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 دن کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔

جسٹس منیب نے کہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن از خود انتخابات ملتوی کرنے کا حکم جاری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 6 سال بھی کر سکے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے اس پر آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کے حکم میں کہا کہ فنڈز فراہم نہیں کیے گئے، الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی درخواست نہیں کی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اخبار میں وزیرِ اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے کہ مارچ تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ انتخابات کے لیے 500 میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے۔

علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ فنڈز دینا مشکل ہو گا، وزارتِ خزانہ نے مشکل کہا تھا، انکار نہیں کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ نے تو کہا کہ الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکریٹری ایسا فنٹاسٹک بیان کیسے دے سکتا ہے؟ ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے۔

چیف جسٹس کی ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویزدے دی اور کہا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کے لیے کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ سیکریٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے سوال کیا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کی حقیقت سے نظر نہیں چرائی جا سکتی، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے، خیبر پختون خوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367، خیبر پختون خوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتِ حال خیبر پختون خوا سے مختلف ہے، ترکیہ میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کوچھوڑ کر ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔

دوران سماعت ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کا تذکرہ
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ایبسلوٹلی ناٹ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے اصل میں کسی اور کو کہا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت میں 30 منٹ کا وقفہ کر دیا۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی۔ 

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے۔ گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنچ ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع ان کے وکلاء کریں گے۔ حکومت سے فنڈز اور سیکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فنڈز کے حوالے سے کل سیکرٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170ارب حکومت نے وصول کرنے تھے۔ اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا۔جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مزید اقدامات کر کہ 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے؟ اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہوگا۔

جسٹس منیب اختر نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم سمجھیں کہ قوم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے؟ کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے؟ افواج حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتے؟ ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے۔ فوج کا کام سیکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ جب الیکشن ہوں تو فوج کا کام ہے سیکورٹی فراہم کرے۔ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے۔ اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں۔ 2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی۔ کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔ کمیشن کو تیار رہنا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ چار ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن وہ ہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم پر لکھی ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا۔ مردم شماری ابھی بھی جاری ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مردم شماری کے بعد چار ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے۔ مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے۔ جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کے دوران الیکشن نہیں ہو سکتے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں۔

عدالت نے انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

مزیدخبریں