ایک نیوز:سپریم کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے بھٹو پھانسی ریفرنس میں ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے، کیس ٹرائل کورٹ سے ایف آئی اے کو کیسے منتقل ہوگیا؟ بھٹو کیس کا بند ٹرائل دوبارہ کیسے کھولا گیا یہ بھی دیکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
عدالتی معاون و سابق جج سپریم کورٹ جسٹس (ر) منظور ملک نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ کل میں گواہ مسعود محمود پر جرح کی بات کر رہا تھا کہ اس دوران جسٹس یحیی آفریدی نے اہم سوال اٹھایا، ایک گواہ نے کہا ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سیکیورٹی فورس (ڈی جی ایف ایس ایف) سے احمد رضا قصوری کو صاف کرنے کی ہدایت ملی، یہ بیان کیس کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کو رد کر رہا تھا، وعدہ معاف گواہ نے کہہ رکھا تھا کہ قتل کی ہدایات وزیراعظم سے ملی تھی۔
عدالتی معاون نے مزید بتایا کہ دوسرے گواہ کا بیان چونکہ وعدہ معاف گواہ کے خلاف تھا اس لیے اسے نظر انداز کر دیا گیا، سوال تھا کیا گواہ میاں غلام عباس کا بیان 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ہوا؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے مگر 342 کے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ رضاکارانہ بیان نہیں تھا، اب ہم وہ بیان دیکھ لیتے ہیں وہ تھا کیا، 164 کے تحت محض بیان ریکارڈ کرانے سے کوئی گواہ نہیں بن جاتا، جب تک اسے معافی نہ دی جائے اس کا 164 کا بیان صرف اعتراف جرم ہو گا۔
جسٹس(ر) منظور ملک نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہان کے بیانات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، گواہ نے دعویٰ کیا کہ اس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان غیر متزلزل ہے، اتنا بڑا دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہو، ایک گواہ نے کہا اس نے بھٹو صاحب سے کہا ہم سب کو خدا نے انجام تک پہنچانا ہے، گواہ نے کہا میں نے بھٹو صاحب سے کہا میں مزید ایسے احکامات کی بجاآوری نہیں کروں گا تو کیا ایک آفسر وزیراعظم کے سامنے ایسی بات کر سکتا ہے؟
عدالتی معاون نے دریافت کیا کہ کیا اس سپریم کورٹ کا رجسٹرار چیف جسٹس کے سامنے ایسی باتیں کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟اس پر چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ میں آپ سے متفق نہیں ہوں، میں تو کئی چیزوں پر رجسٹرار کی اختلاف پر حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ میں نے آپ کی تو بات ہی نہیں کی، آپ خود پر نہ لیں، ذوالفقار علی بھٹو کا کیس قتل کا ٹرائل نہیں بلکہ ٹرائل کا قتل تھا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ تاریخ درست کرنی ہے یا نہیں، عدالت ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرے کہ تکنیکی معاملے پر جانا ہے یا مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے سیاسی اثرات بھی ہیں لیکن میں ان پر بات نہیں کروں گا، اندرون سندھ کے لوگ آج بھی بھٹو کی پھانسی کو نہیں بھول سکے ہیں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی معافی کا حکم نامہ کہاں ہے؟ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا تعلق بھی قصور سے ہے، کیا قتل کا حکم دینے والے کو مسعود محمود اور مدعی مقدمہ کے تعلق کا علم نہیں تھا؟ کیا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے اس پہلو کا جائزہ لیا تھا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنی یا مخالفت اپنے ہی علاقہ کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے، کیا اس پہلو کی تحقیقات کی گئیں کہ قتل کا حکم کسی اور نے دیا ہو اور نام وزیراعظم کا لگا دیا گیا ہو؟ گواہ کا ضمیر 3 سال بعد ہی کیوں جاگا؟اس پر منظور ملک نے جواب دیا کہ کیس میں بہت زیادہ دستاویزات ہیں اتنی کہ پڑھنا ممکن نہیں، یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ اتنی دستاویزات لگا دو کہ کوئی پڑھے ہی نہ۔اسی کے ساتھ عدالتی معاون جسٹس(ر) منظور ملک کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں عدالت نے گواہ مسعود محمود کے بیرون ملک جانے کی تفصیلات اٹارنی جنرل سے طلب کر لیں۔
قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کوشش کریں دلائل مختصر کریں، ہم جسٹس سردار طارق کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے عدالتی معاون منظور ملک سے دریافت کیا کہ آپ بینچ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی 10، 12 سال تک یہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں 2 بج کر 30 منٹ تک وقفہ کردیا۔
عدالت میں کارروائی کے دوبارہ آغاز پر فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل شروع کردیے۔
زاہد ابراہیم نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے مارشل لا کے دوران اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا، جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ یہ تو عمومی بیان ہے لیکن کیا اس کا اطلاق ان کے تمام فیصلوں پر ہوگا؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا ہم مارشل لا دور میں ہونے والے تمام کیسز دوبارہ کھولیں گے؟ ولی خان سمیت بہت سے مقدمات اُس وقت سپریم کورٹ تک آتے رہے ہیں، اس طرح تو سب کیسز ہی کھولنا پڑیں گے، ایک مرتبہ عدالت نے دروازہ کھول دیا تو مقدمات کا سیلاب آ جائے گا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ دباؤ میں کیا گیا تھا؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ اس انٹرویو میں ایسا کوئی جملہ نہیں ہے، باقی انٹرویوز کا بھی جائزہ لیں پھر صورتحال واضح ہوگی۔
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم باقی وکلا کو پیر کو سن لیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 4 مارچ بروز پیر صبح 11 بج کر 30 منٹ تک ملتوی کردی۔