ایک نیوز: مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ نے کہا ہے سیاستدانوں کو بیٹھ کر اتحاد سے بات کرنی چاہئے ،لیکن بیٹھ کر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے جو بیٹھنے والے سے غلطی ہوئی اسے تسلیم کیا جائے ۔
تفصیلات کے مطابق رانا ثناء اللہ نے لاہور میں خواجہ محمد رفیق شہید کے 52ویں یوم شہادت پر منعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاپاکستان کو آگے بڑھانے کےلیے سیاسی قائدین کا آپس میں بیٹھ کر معاملات سلجھا رہے ہیں اس کی مدد کی جائے۔
انہوں نے کہا سیاستدانوں کو بیٹھ کر اتحاد سے بات کرنیُ چاہیے، لیکن بیٹھ کر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے جو بیٹھنے والے سے غلطی ہوئی اسے تسلیم کئے جائیں، چارٹر آف ڈیموکریسی اور 73ء کا آئین اہم ترین ڈاکومنٹ ہے جس پر بی بی نوازشریف نے مل کر ڈاکومنٹ پر بیان جاری ہوا اس سے پہلے کوئی غلطی کی اسے تسلیم کیا، مجھ سے مطالبہ کیاجاتا ہے میرا مینڈیٹ غلط ہے اس لئے چھوڑ دیا جائے کل کی تو بات ہے یہی مینڈیٹ آپ کے پاس تھا کیوں نہیں چھوڑا ، کہا جا رہا ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں تو کل کی بات ہے آپ نے بے شمار مقدمہ بنائے تو خیال نہ آیا یہ کیا کررہے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے کہا اگر مذاکرات نے کامیاب ہونا ہے خلوص نیت سے کامیاب کرنا چاہتے ہیں، کمیٹی کے رکن ایسے ہی ہیں وہ اداکار ہیں جو پروڈیوسر ہدایتکار وہ خواجہ سعد رفیق ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں اگر بات تسلیم کروانا درکار ہے تو کل کی بات بھی تسلیم کریں، اپنا سچ منوانا چاہتے ہو تو میرا سچ کو تسلیم کرو تسلیم نہ کرو تو افسوس ہی کر لو، اس بات کو مانا ہے سیاستدان بیٹھ کر مسائل حل کریں یہی بات ن لیگ نواز شریف 31اکتوبر 2023ء کو قوم کے سامنے کہہ چکا ہے ، ملک اس وقت جس بحران کا شکار ہے میرا چالیس سالہ سیاست کا تجربہ ہے جب تک ہم سب سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے بحران سے نہیں نکل سکیں گے ۔
ان کا مزید کہنا تھا جن کی طرف سے جواب آنا چاہیے تھا وہاں سے جواب نہیں آیا، آپ تیاری کریں اور وٹس ایپ پر پیغام آتے رہے کہ چھبیس نومبر 2024ءتک ہی ایسا ہوا، تین ناموں کی سوچ اکتیس اکتوبر 2023ء کی تھی جو بحران ستر سالوں سے گھیرے ہوئے ہے ستر دنوں میں ختم ہو سکتے ہیں، پی ٹی آئی سے مذاکرات کےلئے نوازشریف ، بانی پی ٹی آئی اور آصف علی زرداری کا نام بھی شامل ہونے چاہئیں، بحرانی کیفیت میں وہ لوگ ذمہ دار نہیں جو اس سوچ کے تحت بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں ہمارے بس میں تو ہے، خواجہ آصف ، خواجہ سعد اور میرے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا تو خواجہ آصف بھی مذاکرات کے حامی ہیں، ڈپلومیٹک انداز میں نشاندہی نہیں بلکہ بتائیں کس کا کیا رویہ ہے بیس دسمبر 1972 کو بھی اسی رویہ کی وجہ سے خواجہ رفیق شہید ہوا ، رویوں میں کوئی بہتری لایا تو اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے جو ضد و ہٹ دھرمی کا شکار ہے اس کی نشاندہی ہونی چاہئے۔