اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست غیر مؤثر قرار دیدی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست غیر مؤثر قرار دیدی

ایک نیوز: اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کیس سے متعلق الیکشن کمیشن کا 20 دسمبر کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست غیر مؤثر قرار دے دی۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو کروانے کی پی ٹی آئی اپیل پر جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، دوران سماعت الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیے ہیں، یونین کونسلز کی تعداد بڑھنے سے الیکشن ملتوی کیے گئے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ؟ یہ بتائیں کیا وفاقی حکومت پہلے سوئی ہوئی تھی، ہم کیوں نا ایڈمنسٹریٹر کی پاور کو معطل کر دیں، ایڈمنسٹریٹر لوکل گورنمنٹ کا فنڈ استعمال کیے جا رہے ہیں،نہ پچھلی حکومت نہ ہی یہ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہے، اتنا سا شہر ہے بیڑا غرق کردیا ہے شہر کا، یونین کونسل کی تعداد 125 جو کی ہے وہ 250 کر دیں کوئی فرق نہیں پڑنا، سپریم کورٹ میں حلف نامہ دیا تھا پھر بھی الیکشن نہیں کروا رہے، یہ تو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل نے بتایا کہ 3 چیئرمین اور 50ممبر بغیر الیکشن منتخب ہو چکے ہیں جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ جو بغیر الیکشن منتخب ہوئے ان کا کیا اسٹیٹس ہے ، 2 سال سے اس شہر کو بے یارو مدد گار چھوڑا ہوا ہے، الیکشن کمیشن کا یہ کام نہیں حکومت کی طرف دیکھے، آپ نے الیکشن کروانے ہوتے ہیں آزادانہ، لوکل باڈیز کا فنڈ سی ڈی اے اور ایڈمنسٹریٹر کیوں استعمال کرے؟ سی ڈی اے کے پاس کوئی اختیار نہیں لوکل گورنمنٹ فنڈ استعمال کرے، لوگوں کو یہاں پانی نہیں مل رہا شہر کا کیا حال کر دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ صدر نے ابھی دستخط نہیں کیے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے پہلے ہی سمجھ لیا وہ قانون بن چکا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ انتخابات کا شیڈول آنے کے بعد کیا یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے، وفاقی حکومت نے تو کبھی بھی الیکشن کمیشن کو درخواست نہیں دی، سوال یہ ہے کہ یہ شہری بغیر منتخب نمائندوں کے ہے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ چاروں صوبے بغیر منتخب نمائندوں کے چل رہے ہیں، کسی نے بھی حکومت کے 19 دسمبر کے نوٹیفکیشن کو چیلنج نہیں کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو آرڈیننس کیوں جاری کرتے ہیں، اسمبلی نہیں چلا سکتے تو پھر نہ بیٹھا کریں، انہوں نے 39 آرڈیننس جاری کیے کیا کوئی آرڈیننس فیکٹری لگانی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا گیا کہ ہائیکورٹ کا آرڈر تھا الیکشن کمیشن فریقین کو سن کر فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن نے کیسے لکھ دیا کہ ہائیکورٹ نے ہدایت کی تھی الیکشن ملتوی کرنے کی؟ کیا اس صورت حال میں ہم انتخابات کروانے کا حکم دے سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت کیسے انڈرٹیکنگ دے گی جو پہلے سپریم کورٹ بھی دے چکے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب ملتوی کئے ہیں؟یہ انتخابات اس لئے ملتوی ہوئے ہوں کہ بلدیاتی انتخابات پہلے ہونے ہیں؟اس وقت قومی خزانے سے 50 ساٹھ کروڑ روپیہ خرچ ہو چکا ہے، اگر پارلیمنٹ کچھ دن بعد ایک نیا قانون بنانا شروع کر دے تو الیکشن پھر ملتوی ہو جائیں گے؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپکی انٹرا کورٹ اپیل تو ابھی غیر موثر ہوگئی ہے،پی ٹی آئی وکیل کی انٹرا کورٹ اپیل  زیر سماعت رکھنے کی استدعا مسترد۔عدالت نے پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل نمٹا دی۔