ایک نیوز : فرانس میں مسلمان طالبات کے عبایا لباس پہننے پر پابندی ۔ کچھ مسلم طالبات عبایا پہن کر اسکول آ رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ فرانس کے اسکولوں میں سخت سیکولر قانون نافذ ہیں۔ لیکن عبایا پہن کر اسکول آنا اس قانون کی خلاف ورزی ہے۔ فرانسیسی وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے بھی عبایا لباس پر پابندی لگانے کی تصدیق کی ہے۔
فرانسیسی وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے ٹی ایف 1 ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 4 ستمبر سے ملک بھر میں اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے تمام اسکولوں کے سربراہان کو قومی سطح پر واضح قوانین بتائے جائیں گے۔ عام طور پر فرانس میں اس طرح کے فیصلوں کے بعد کافی تنازعات سامنے آئے ہیں۔ ملک کی 10 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ایسے میں اس بار بھی تنازعہ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب ہے اسکولوں کے ذریعے خود کو آزاد کرنے کی آزادی۔ عبایا کو مذہبی لباس قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسے پہن کر آنا ملک کے سیکولر قوانین کا امتحان لینے کے مترادف ہے، جسے اسکول بھی قبول کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جیسے ہی آپ کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ طلبہ کو دیکھ کر ان کے مذہب کو کوئی پہچان نہ سکے۔
فرانسیسی حکومت کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت اٹھایا جا رہا ہے جب کئی مہینوں سے یہ بحث جاری تھی کہ آیا فرانسیسی اسکولوں میں مسلم طالبات کو عبایا پہننے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ملک کے اسکولوں میں خواتین اور طالبات کے اسلامی ہیڈ اسکارف یا حجاب پہننے پر پہلے ہی پابندی ہے۔ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا کہ طالبات عبایا پہن کر اسکول آ رہی ہیں۔ اس معاملے کو لے کر اساتذہ اور والدین کے درمیان تناؤ بھی ہے۔
دراصل فرانس میں مارچ 2004 میں ایک قانون پاس کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے اسکولوں میں ان چیزوں کے پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھئ، جن کے ذریعے کسی کے مذہب کی شناخت کی جا سکے۔ اس میں بڑی صلیبیں، یہودی ٹوپیاں اور حجاب شامل تھے۔ عبایا حجاب کا مخالف ہے، جہاں صرف سر کو حجاب کے ذریعے ڈھانپا جاتا ہے اور چہرہ نظر آتا ہے۔ اور عبایا پورے جسم کو ڈھانپنے کا کام کرتا ہے۔ حالانکہ اس میں بھی چہرہ نظر آتا ہے۔واضح رہے اس پر ابھی تک کوئی پابندی نہیں تھی۔