ایک نیوز:توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کو بڑا ریلیف مل گیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی سزا کالعدم قرار دیدی ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز محفوظ کیا ہوا فیصلہ سناتے ہوئےٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے عمران خان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ہائی کورٹ نے اس وقت مختصر فیصلہ سنایا ہے جبکہ تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پانچ اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس (توشہ خانہ کیس) میں بدعنوانی کا مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔ فیصلہ آنے کے فوراً بعد انھیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا اور اب وہ پنجاب کی اٹک جیل میں قید ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت پر رہائی کے لیے ایک لاکھ روپے کے مچلکے تیار کرلیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ مچلکے جمع کرانے کے لیے مصدقہ نقل کے لیے اپلائی کر دیا ہے۔عدالتی آرڈر کی مصدقہ نقل ملنے کے بعد ضمانتی مچلکے جمع کرائے جائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کی سزا کیخلاف درخواست پر سماعت کل ہوئی تھی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری ڈویژن بینچ کا حصہ تھے۔
عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی استدعا کردی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ آج چیئرمین ہی ٹی آئی کی سزا معطلی پر فیصلہ کردیں گے۔
امجد پرویز نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل شروع کردیے۔ چیف جسٹس نے امجد پرویز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے چھ نقاط اٹھائے تھے اسی پر رہیں۔
امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ 2017 میں الیکشن کمیشن کو جمع کرایے گئے گوشوارے چھپائے تھے۔ امجد پرویز نے عمران خان کی سزا معطلی کی مخالفت کردی۔ انہوں نے مختلف قوانین اور عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی پیش کیے۔
امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ کہا گیا سیکرٹری الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات نہیں، اسپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی سے متعلق سوالات سامنے ہیں، ایسے کیسسز میں اسپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی ضروری نہیں، کورٹس نے دیکھا کہ اسپیشل تعیناتی کی ضرورت نہیں مگر جو پراسیکیورٹر موجود ہے وہ آسکتے ہیں۔
امجد پرویز کا بھارتی کانگریس رہنما راہول گاندھی کیس میں بھارتی عدالت کا بھی حوالہ:
امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ ہمارے ہاں کم سے کم سزا ایک سال جبکہ بھارت میں کم سے کم تین سال ہے۔ سزاؤں کے حوالے سے ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہے۔ راہول گاندھی کو دو سال سزا ہوئی تھی، جس پر راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دی تھی، لیکن ان کی سزا معطلی کی درخواست مسترد ہوئی۔ میں شارٹ سینٹینس کی بنیاد پر سزا معطلی کی اپیل کی مخالفت نہیں کررہا۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس کیے بغیر اپیل پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ قانون بھی یہی کہتا ہے کہ حکومت کو نوٹس ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے ظہور الہی کیس کا بھی حوالہ:
امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایسے تمام مقدمات میں تین وکلاء کی حاضری لگائی جاتی ہے، وکیل دفاع، وکیل استغاثہ اور حکومتی وکیل۔ امجد پرویز نے مختلف قوانین اور فیصلوں کے حوالے دے دیے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطلی درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ الیکشن کمیشن کی عمران خان کے خلاف پرائیویٹ کمپلینٹ ہے، ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا، یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب کے مقدمات میں تو پبلک پراسیکیوٹر موجود نہیں ہوتا۔ اس پر امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹر موجود ہوتے ہیں جنہیں سنا جاتا ہے، نیب قانون میں پبلک پراسیکیوٹر کا ذکر ہی نہیں ہے، پبلک پراسیکیوٹر کی بات سی آر پی سی کرتا ہے۔ میری یہی درخواست ہے کہ حکومت کو نوٹس جاری کیا جائے، قانون میں کمپلیننٹ کا لفظ ہی نہیں، اسٹیٹ کا لفظ ہے، تعزیراتِ پاکستان کے تحت کسی بھی مقدمے کا ٹرائل ہونا ہے، ٹرائل کورٹ ہی کسی بھی مقدمے میں ٹرائل چلاتی ہے، مجسٹریٹ کے سامنے جب شکایت جاتی ہے تو وہاں سے ٹرائل کا آغاز کیا جاتا ہے، جس طرح کیسز یہاں آتے ہیں اور آپ ان کو دوسری عدالت منتقل کرتے ہیں، اسی طرح ٹرائل کورٹ میں بھی کیسز ایک عدالت سے دوسری عدالت منتقل ہوتے ہیں۔
امجد پرویز کے سیشن کورٹ کے براہ راست کمپلینٹ سننے کے نقطے پر دلائل شروع:
امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت کسی بھی جرم کا ٹرائل ہونا ہی سی آر پی سی کے تحت ہے، تقریباً 50 سالوں میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کی کمپلینٹ آج تک کسی مجسٹریٹ کے پاس نہیں گئی ہے، مجسٹریٹ کے پاس تو کسی کمپلیننٹ پر آرڈر پاس کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے، مجسٹریٹ صرف اپنے دائر اختیار کی کمپلینٹ پر آرڈر جاری کر سکتا ہے، قانون کہتا ہے competent jurisdiction والی عدالت ہی آرڈر پاس کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ کے مطابق سیشن کورٹ بالکل competent jurisdiction والی کورٹ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ غلطی ہے بھی تو وہ ٹرائل کو خراب نہیں کرے گی؟ امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے، کوئی ایک ایسا فیصلہ موجود نہیں جہاں کرپٹ پریکٹسز کی شکایت مجسٹریٹ کے پاس دائر ہوئی ہو۔
وکیل الیکشن کمیشن کی کیس میں وقفہ لینے کی استدعا:
امجد پرویز نے کہا کہ دوائی کھانے کے لیے دس پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں پندرہ منٹ کا وقفہ کرلیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت 15 منٹ وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز روسٹرم پر موجود تھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے۔ لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، کچھ فیصلوں کے حوالے دینا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک گھنٹہ اس دن لیا، دو گھنٹے آج لے گئے ہیں۔
اس پر امجد پرویز نے کہا کہ میں کوئی ایسا سیکشن نہیں پڑھوں گا جو نیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بھی دو بار یہاں، اور ایک بار سپریم کورٹ میں دلائل دے چکے ہیں، انہوں نے الیکشن کمیشن اور سیشن جج کو ویلن بنایا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی وہاں مت جائیں، سزا معطلی پر ہی دلائل جاری رکھیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ دفاع کی جانب سے کمپلین کی باقاعدہ اجازت کے حوالے سے اعتراض اٹھایا گیا ہے، ان کے مطابق باقاعدہ اجازت کے بغیر کمپلین قابل سماعت نہیں ہے، میں عدالت سے الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ پڑھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
امجد پرویز نے کہا کہ یہ authorization الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد دی گئی، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ دفتر جو بھی ضروری ہو کرے، الیکشن کمیشن نے کسی فرد کو تو ہدایت جاری نہیں کی، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کو تو ہدایت جاری نہیں کی، وہ کیوں کمپلین کرے؟
امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے اپنے فیصلے میں متفقہ طور پر اجازت دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اگر سیکرٹری کمیشن کو ڈائریکشن دیتا تو وہ بات الگ تھی، یہاں الیکشن کمیشن نے سیکرٹری کی بجائے آفس کو یہ ہدایت دی ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ اس کمپلینٹ کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن نے منظور کیا، الیکشن کمیشن کے فل کمیشن نے کمپلینٹ کی منظوری دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ابھی کیا رہ گیا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمپلینٹ کا دورانیہ ، حق دفاع ختم ہونے اور دائرہ اختیار طے نا کرنے کے تین نکات رہ گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ اب مزید کِس نکتے پر دلائل باقی ہیں؟
امجد پرویز نے کہا کہ حقِ دفاع اور چار ماہ میں کمپلینٹ دائر کرنے کے نکات پر دلائل دینے ہیں، واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی، میں بتاؤں گا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی نہیں کی، ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ ملزم کے وکیل عدالت میں پیش ہو کر دلائل دیں گے، میرے دلائل آج مکمل نہ ہو پانے کی ایک وجہ ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہیں نہیں، آج ہی مکمل کریں گے۔
امجد پرویز نے کہا کہ خواجہ حارث کا بیان حلفی اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ مجھے بیان حلفی کی تصدیق شدہ کاپی نہیں مل سکی، میں کسی وکیل کے بیان حلفی کے جواب میں حلفیہ بیان دینے والا آخری شخص ہوں گا، آفس نے مجھے خواجہ حارث کے بیان حلفی کی مصدقہ کاپی فراہم نہیں کی، بیان حلفی کا سپریم کورٹ میں بھی تذکرہ ہوا مگر وہ آفس میں سی ایم کے ذریعے دائر نہیں ہوا، بیان حلفی ادھر ہی دوران سماعت کورٹ کو دیا گیا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ امجد صاحب پانچ دس منٹ میں آپ مکمل کر لیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ میں نے عدالتی نظریں آپ کے سامنے رکھ دیں عدالت دیکھ لے۔ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف یہ کیس غلط ڈکلیئریشن کا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات پبلک دستاویز ہوتا ہے؟
توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل مکمل کرلیے۔
چئیرمین تحریک انصاف کے وکیل لطیف کھوسہ نے جواب الجواب شروع کر دیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں ان دلائل میں کچھ شامل نہیں کرنا چاہوں گا، امجد پرویز کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے دلائل مکمل کر لیے۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ صرف حکومت کو نوٹس جاری کرنے سے متعلق تھوڑی معاونت کردیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کردیں نوٹس، کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ویسے قانونی طور پر نوٹس کرنے کا کوئی تقاضہ نہیں ہے، اس مرحلے پر کر نہیں سکتے، کرنا چاہیے بھی نہیں۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔