ایک نیوز نیوز: 72 برس کی عمر میں انتقال پانے والی نیرہ نور 1950 کی دہائی میں موجودہ ہندوستان کے آسام میں پیدا ہوئیں، ا ن کا خاندان پیشہ ورانہ طور پر تاجر تھا جو امرتسر سے آسام کے شہر گوہاٹی میں آبسا تھا۔
نیرہ کے والد مسلم لیگ کے ایک فعال رکن بھی تھے۔ نیرہ نور کا خاندان قائداعظم محمد علی جناح کے مشورے پر امرتسر سے آسام منتقل ہوا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ایک نئی شاخ ( سب آفس ) کی بنیاد رکھی۔ نیرہ نور کے والد فوری طور پر پاکستان ہجرت نہیں کرسکے کیونکہ ان کے پاس جائیداد تھی جسے وہ 1993 میں ہی تصرف کرسکتے تھے۔ ان کی فیملی 1958 میں لاہور منتقل ہوگئی تھی جبکہ ان کے والد بعد میں پاکستان آئے۔
نیرہ نور کا تعلق کسی فنکار گھرانے سے نہیں تھا ، اس کے باوجود انہوں نے موسیقی کو سمجھا ۔ان کی وفات سے موسیقی کی دنیا کا ایک اور باب بند ہوگیا۔
منیزہ ہاشمی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے لتا منگیشکر، کنن بالا، کملا جھریا اور بیگم اختر کو سن کر گانا سیکھا، جو اس دور کی مشہور آوازیں تھیں۔ میڈم نور جہاں اور فریدہ خانم بھی ان کی پسندیدہ شخصیات میں سے تھیں۔
واقعی ایک باصلاحیت گلوکارہ، نیارا نے سواروں (میوزیکل نوٹ) کا ٹریک نہیں کھویا۔ وہ سبھی راگوں کے لیے تھیں، لیکن گٹرل جمناسٹک کے حق میں نہیں تھیں جس میں ہمارے کچھ استاد یا پنڈت شامل ہیں۔ "انہیں نرمی سے گا کر راگوں کی باریکیوں اور باریکیوں کو سامنے لانا چاہیے،" اس نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا تھا۔
ان کے معروف گانوں ملی نغموں اور غزلوں میں، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر اور وطن کی مٹی گواہ رہنا سمیت دیگر بہت سے شامل ہیں۔
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے۔
— Asma Azam (@AsmaAzam71) August 20, 2022
نیرہ نور کی روح کے سکون کے لیے بے شمار دعائیں❤ pic.twitter.com/4ORTJ6KSuy
نیرہ کہتی ہیں کہ بچپن میں وہ کملا اور کانن دیوی کے مذہبی گیتوں (بھجن)، ٹھمری، غزل اور بیگم اختر (اختری بائی فیض آبادی) سے بہت متاثر تھیں۔ نیرہ کا خاندان نہ تو فن موسیقی سے وابستہ تھا اور نہ ہی نیرہ نے موسیقی کے حوالے سے کوئی رسمی تعلیم حاصل کی۔
تاہم نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے 1968 میں نیرہ کو اسلامیہ کالج لاہور کے اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے لیے قومی کالج برائے فنون لاہور میں ایک عشائیے کے بعد گاتے سنا تھا۔
وطن کی مٹی گواہ رہنا
— Raza Butt ????️ (@SocialDigitally) August 20, 2022
بلبل پاکستان نیرہ نور انتقال کرگئیں انا للہ وانا الیہ راجعون pic.twitter.com/bvVFGZQe8o
1971 میں نیرہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے سلسلے وار کھیلوں کے لیے گیت گانے سے اپنے باقاعدہ فن کا آغاز کیا۔ تاہم بعد میں انہوں نے بہت سے نامور شعرا جیسے مرزا اسداللہ غالب، ناصر کاظمی، ابن انشاء اور فیض احمد فیض وغیرہ کے کلام نہایت دلکش انداز سے گائے ہیں جب کہ نیرہ نے دیگر مرد گلوکاروں جیسے کہ مہدی حسن، احمد رشدی و عالمگیر وغیرہ کے ساتھ دو گانے بھی گائے ہیں۔
نیرہ پاکستان محفل موسیقی میں تین سونے کے تمغے جیت چکی ہیں، ان کو بہترین پس پردہ فلمی گلوکارہ کا نگار اعزاز بھی عطا کیا گیا تھا۔ پاک و ہند میں غزل و شاعری کے دلدادہ لوگوں کے لیے نیرہ نے لاتعداد مشاعروں اور موسیقی کی محفلوں میں اپنی آواز سے شعروں کو زندگی بخشی ہے۔
بہزاد لکھنوی ریڈیو پاکستان کے ایک نامور شاعر، مکالمہ نویس، گیت کار اور مصنف ہیں شاید کہ ان کے بہترین گیتوں میں بہزاد لکھنوی کی یہ غزل ایک شاہکار ہے جس کے گانے پر نیرہ نے بے شمار داد تحسین وصول کی ہے۔ نیرہ ایک ماہر اور موسیقی میں یکتا گلوکارہ ہیں۔ ناصر کاظمی ان کے دلپسند شاعر تھے۔
کچھ لوگ کچھ آوازیں، کچھ چہرے آپ کی یادوں کے، آپ کے ساکت لمحوں کے، آپ کی روح کی خاموشیوں اور تنہائیوں کے انجان ساتھی ہوتے ہیں۔۔۔۔
— Shehla Asim (@ShehlaNatt) August 21, 2022
نیرہ نور ۔۔۔۔ محض ایک آواز اور چہرہ نہیں تھا ۔۔۔۔???????? pic.twitter.com/nLumWHINy7