بھارت میں مسلمانوں کیخلاف 6 ماہ میں 250 سے زائد نفرت انگیز تقاریر

Sep 27, 2023 | 14:26 PM

ایک نیوز: واشنگٹن میں قائم ہندوتوا واچ نامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف روزانہ اوسطاً ایک سے زیادہ مرتبہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور یہ صورت حال ان ریاستوں میں زیادہ نمایاں رہی جہاں اگلے چند ماہ کے دوران ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔

ہندوتوا واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2023 کی پہلی ششماہی میں مختلف میٹنگوں اور پروگراموں کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 255 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ 

رپورٹ کے مطابق نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں سن 2023 اور 2024 میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

'نفرت انگیز تقاریر اب عام بات'

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے واقعات اب عام ہیں اور یہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی پارلیمان میں بھی اس کا افسوس ناک مظاہرہ ہوا۔ حالانکہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن رمیش بدھوڑی نے مسلم رکن پارلیمان کنور دانش علی کے خلاف جس طرح کے "نازیبا الفاظ" استعمال کیے اس کی ایک بڑے حلقے کی جانب سے مذمت بھی کی جا رہی ہے۔

اس سے قبل جون میں بی جے پی کی حکومت والی اتراکھنڈ ریاست میں دیواروں پر ایسے پوسٹر چسپاں ملے تھے جن میں مسلمانوں کو علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کی وارننگ دی گئی تھی۔ 'دیو بھومی رکشا ابھیان' نامی ایک ہندو گروپ نے یہ پوسٹر چسپاں کیے تھے۔ 

ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں دیکھنے میں آئے۔ صرف مہاراشٹر میں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، ایسے 29 واقعات ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرت انگیز تقریروں کے دوران سازشی نظریات کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ مقررین نے ہندووں سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت سن 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندو ووٹرو ں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے۔ 

ہندوتوا واچ کے مطابق اس نے ہندو قوم پرست گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کا سراغ لگایا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقاریر کی تصدیق شدہ ویڈیوز دیکھنے اورمیڈیا میں رپورٹ کیے گئے واقعات کی بنیاد پر اپنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

مودی حکومت نے ہندوتوا واچ کی اس رپورٹ پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور منافرت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

مزیدخبریں