سارہ قتل کیس، عدم ثبوت کی بنا پر ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم

Sep 27, 2022 | 14:17 PM

muhammad zeeshan

ایک نیوز نیوز: سارہ انعام قتل کیس میں اہم پیشرفت۔  اسلام آباد کی مقامی عدالت عدم ثبوت کی بنا پر ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ جج  نے اپنے حکمنامے میں کہا پولیس ریکارڈ میں ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں ایاز امیر  کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد پیش کیا گیا تھا۔ 

ایاز امیر سینئر سول جج محمد عامر عزیز کی عدالت میں پیش  ہوئے۔  پولیس کی جانب سے ایاز امیر کے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

تفتیشی آفیسر کا کہنا تھا  رات کو تفتیش کی ہے ملزم شاہنواز کا ان سے رابطہ ہوا تھا۔ مقتولہ کا والد بھی اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔

 ایاز امیر  کے وکیل بشارت اللہ نے  دلائل دئیے ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں،   پولیس نےوارنٹ گرفتاری حاصل کر کے ایاز امیر کو گرفتار کیا ہے۔ایاز امیر کے خلاف پولیس کے پاس ثبوت کیا ہے

انگلینڈ سے اگر بندہ آرہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں۔  ایاز امیر اپنے گھر چکوال میں تھے انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔35 سال سے ایاز امیر کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری استدعا ہے کہ سردست صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔ہمیں مقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے۔

 وکیل بشارت اللہ نے مزید دلائل دئیے پولیس عدالت کو ابھی تک نہیں بتا سکی کس ثبوت کے تحت ایاز امیر کو گرفتار کیا ہے۔  ہم تو تفتیش سے نہیں بھاگ رہے وارنٹ لیکر گرفتار کر لیا۔ کوئی ایسا یکٹ بتا دیں جس سے ثابت ہو ایاز امیر ملوث ہے۔ یہ ساری باتیں ٹرائل کی ہیں ریمانڈ سٹیج پر دیکھا جائے کیا ثبوت آئیں ہیں۔ کل مقتولہ کے والدین آئے ہیں انہوں نے تدفین بھی کرنی ہے۔ ابھی تک ایاز امیر کا واٹس ایپ پر رابطہ ہوا وہ ثبوت ہے۔ اگر ہمیں خود بھی لگتا ہے اگر یہ بیگناہ ہے تو ہم ڈسچارج کر دینگے۔ ایاز امیر کو نامزد بھی والدین نے کیا ہے۔ 

جج کا استفسار کیا ایاز امیر کو کس نے نامزد کیا وہ کدھر ہیں۔ سرکاری وکیل نے جواب دیا وہ مقتولہ کے چچا ہیں اور پاکستان ہی میں ہیں۔ 

جج نے استفسار کیا آپ کے پاس بادی النظر میں ثبوت کیا ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا مقتولہ کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا تھا۔مقتولہ سارہ کے والدین کے پاس سارے ثبوت ہیں۔ 

 وکیل ایاز امیر نے کہا پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے۔ والد کا بیٹے سے رابطہ وقوعہ کے بعد ہوا ہے۔ باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے۔ پھر تو جس جس سے رابطہ ہواپولیس  انکو ملزم بنا دے گی۔ پولیس خود کہہ رہی ہے بیگناہ ہوئے تو ڈسچارج کر دیں گے ۔تو اتنے دن گرفتار رکھا ، جگ ہنسائی ہوئی ،اسکا ذمہ دار کون ہے؟ ابھی پولیس ثبوت اکٹھی کر رہی ہے اور ایاز امیر کو گرفتار کر لیا ہے۔ مقتولہ کے والدین کا میرے کلائنٹ کیخلاف کوئی بیان بھی نہیں ہے۔پولیس بندہ گرفتار کر کے ثبوت ڈھونڈ رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے ایاز امیر کو مقدمہ سے ڈسچارج کرے۔

 سرکاری وکیل نے کہا واٹس ایپ کال کا سی ڈی آر نہیں آتا۔ موبائیل فون کو فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے ۔ 

جس پر وکیل ایاز امیر نے کہا جب ثبوت آجائیں تو پھر وارنٹ لیکر آجائیں اور گرفتار کر لیں۔

 سرکاری وکیل  نے کہا ہم نے ثبوت بنانے ہوتے تو بنا دیتے ایمانداری سے کام کر رہے ہیں۔

وکیل ایاز امیر نے کہا آپ کی ایمانداری یہ ہے کہ  ایاز امیر چار دن سے ہتھکڑی میں  کھڑے ہیں۔

بعدازاں ایاز امیر جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو تھوڑی دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے ایاز امیر کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

مزیدخبریں